0
Monday 4 Mar 2024 11:57

تجارتی راہداریاں اور خطے کی سیاست(1)

تجارتی راہداریاں اور خطے کی سیاست(1)
تحریر: امیر رضا مقومی

دنیا میں سامان اور توانائی کی منتقلی کے لیے راہداریوں پر مقابلہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کچھ لوگ غزہ میں میں جاری حالیہ جنگ کی وجہ کو اس سے جوڑتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مزاحمت کے بلاک نے صیہونی حکومت پر اس لئے حملہ کیا ہے، تاکہ ہندوستان-مغربی ایشیا-یورپ راہداری کو ناکام بنایا جائے، تاکہ مغربی ایشیاء کو اس منصوبے کی درمیانی کڑی کے طور پر عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ صیہونی ہی تھے، جو غزہ سے فلسطینی تنظیموں کا صفایا اور اس کے مکینوں کو نکال کر  آئندہ کے لئے اس علاقے کو اپنے لئے محفوظ بنانے کے درپے ہیں۔ مغربی ایشیائی خطے میں راہداریوں کا کھیل مذکورہ موضوع سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ مثال کے طور پر، ایران مشرقی ایشیاء کو یورپ سے جوڑنے کے لیے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی راہداریوں میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہندوستان اور جنوبی ایشیا کو روس اور یورپ سے جوڑنے کے لیے شمال-جنوب کوریڈور کو مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طرف وہ بحیرہ روم تک اپنی راہداری شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس دوران خطے کے دیگر ممالک بھی اپنے اپنے منصوبوں کی تلاش میں ہیں، جن میں سے کچھ ایران کے منصوبوں کے ساتھ مل رہے ہیں، جبکہ دوسرے تہران کے منصوبوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ خطے کے اہم منصوبوں میں سے ایک عراق کے راستے ایشیاء کو یورپ سے ملانا ہے۔ خلیج فارس میں جغرافیائی رکاوٹوں کی وجہ سے، عراق ایک اہم بین الاقوامی راہداری بننے کے لیے اپنی ایک بڑی بندرگاہ فاؤ کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ اس راہداری کو "ترقی کا راستہ"  کا اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ راہداری خلیج فارس کے شمالی ساحل پر واقع فاؤ کی بندرگاہ سے شروع ہوتی ہے اور ترکی سے گزرتی ہوئی یورپی ممالک تک پہنچتی ہے اور عراق کے مغرب سے مشرقی بحیرہ روم کی منڈیوں کا احاطہ کرنے کے قابل ہے۔ اس طرح کے منصوبے کی تکمیل سے عراق ایک بین الاقوامی اور جیوپولیٹیکل مساوات کے تناظر میں آسکتا ہے اور اس سے عراق کے جیو پولیٹیکل اہمیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس دوران عراق کے ساتھ ایران کی ہمسائیگی اور مزاحمتی محاذ پر اس ملک کی پوزیشن کے ساتھ ساتھ ایران کی جنوبی سرحدوں سے فاو بندرگاہ کی قربت اور ترقی کا راستہ قرار دینے کی وجہ سے ایران کے راہداری پروگراموں کے مقابلے میں بھی ہے۔ اسی لئے یہ مسئلہ مواقع سے زیادہ چیلنجوں کا مجموعہ ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے نے اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے مختلف پہلوؤں میں بے شمار فوائد پیدا کیے ہیں۔ تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ چیلنجوں کا وزن مواقع سے زیادہ ہے۔ ترقی کے راستے کے اقدام کو فعال کرنا کا دارومدار فاو کی بڑی بندرگاہ کی تکمیل پر ہے، اس کی وجہ سے ایران کے بین الاقوامی راہداریوں سے خارج ہونے کا امکان ہے، کیونکہ ایران کا شمال جنوبی کوریڈور ایران کی میکرو حکمت عملیوں کا حصہ ہے۔

نیز خطے میں ترکی کے جیو پولیٹیکل وزن میں اضافہ سے مختلف طرح کے ماحولیاتی، فوجی اور ثقافتی مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے بہت سے چیلنجز پیدا کرسکتا ہے۔ تاہم اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے مناسب حکمت عملی اپنانا ترقی کے راستے کی پہل کو اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی بلاک کے لیے ایک موقع میں بدل سکتا ہے اور اس راہداری کو استعمال کرتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی عظیم حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔

مقدمہ
عراق کے صوبے بصرہ میں اس وقت چار بندرگاہیں ہیں، لیکن یہ ملک اپنی تجارتی آمدورفت کو بڑھانے اور اپنی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے جس اہم بندرگاہ کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ بصرہ صوبے کے جنوب میں واقع فاؤ کی بڑی بندرگاہ ہے۔ خلیج فارس میں جیو پولیٹیکل رکاوٹوں کی وجہ سے، (بہت سے مفکرین ایران اور کویت پر بغداد کے دو فوجی حملوں کا باعث قرار دیتے ہیں)، عراق نے ایک ایسی بندرگاہ بنانے کی کوشش کی ہے، جسے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کرسکے اور اپنی جغرافیائی سیاسی تنہائی کو دور کرسکے۔ اس دوران بڑی فاؤ بندرگاہ کی تعمیر، جس نے کئی دہائیوں سے عراقی رہنماؤں کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ عراق کے لئے جیو پولیٹیکل مسئلے سے چھٹکارا پانے کے اقدامات میں سے ایک ہے۔

فاؤ پورٹ کو عراق کے سب سے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں شمار کیا جاتا ہے، جس کے لیے بغداد نے خصوصی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس بندرگاہ کی تکمیل سے عراق میں ایک بڑی اقتصادی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے اور متحدہ عرب امارات میں جبل علی، کویت میں مبارک اور قطر میں دوحہ کی بندرگاہوں کا ایک سنجیدہ حریف سامنے آسکتا ہے۔ یہ بندرگاہ مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے یورپی منڈی تک سامان برآمد کرنے والی کمپنیوں اور ممالک کی رسائی کو آسان بنا سکتی ہے اور مستقبل میں حتی نہر سویز کے لیے بھی ایک سنجیدہ حریف بن سکتی ہے۔ البتہ بندر فاؤ کی کامیابی اور ثمر آور ہونے کا انحصار "ترقی کی راہ" کے اقدام کی تکمیل پر ہے، جس کی تجویز عراقی وزیراعظم شیاع السوڈانی نے پیش کی ہے۔ اس اقدام کے مطابق ایشیائی ممالک کا سامان اس بندرگاہ پر آسکتا ہے اور زمینی راستے سے ترکی اور وہاں سے یورپ کو برآمد کیا جاسکتا ہے اور یہ عراق کے مغرب سے مشرقی بحیرہ روم کی منڈیوں کا احاطہ بھی کرسکتا ہے۔

عراق کے مخصوص سیاسی حالات، جہاں فرقہ واریت اور بدعنوانی اس ملک کے ستونوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، اسی طرح گذشتہ چند دہائیوں میں بیرونی ممالک بالخصوص امریکہ کی مداخلت اس ملک کی پہچان بن چکی ہے۔ اسی وجہ سے اس قدر بڑے منصوبے کے عملی ہونے کے امکانات کم اور اس منصوبے کی تکمیل غیر یقینی ہے۔ تاہم خلیج فارس کے شمال میں پیش رفت کا میدانی مشاہدہ اور اس سلسلے میں عراقی حکام کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ فاو پورٹ منصوبہ پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور بعض اوقات اس میں 50 سے 60 فیصد تک پیشرفت ہوئی ہے۔ یورپی ممالک (اٹلی اور فرانس) کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا کی ڈائیوو کمپنی کی موجودگی کی وجہ سے کم از کم اس کے پہلے مرحلے کی تکمیل ممکن نظر آرہی ہے۔

فاو گرینڈ پورٹ اینڈ ڈویلپمنٹ روٹ انیشیٹو
27 مئی 2023ء کو بغداد نے خلیج فارس کے عرب ممالک منجملہ ایران، شام، ترکی اور اردن کے وزرائے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے نمائندوں کی ایک علاقائی کانفرنس کی میزبانی کی۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر عراقی حکومت کے اس منصوبے کو پیش کرنے کے لیے مخصوص تھی، جسے وہ "ترقی کا راستہ" کہتی ہے، جو ایک بڑا اسٹریٹجک منصوبہ ہے، جس کا مقصد عراق کو ایشیاء سے یورپ اور اس کے برعکس یورپ سے ایشیاء سامان کی منتقلی کے لیے ایک راہداری میں تبدیل کرنا ہے۔ ترقی کا سفر منصوبہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔ کیونکہ پچھلے سالوں میں اسے "لینڈ کوریڈور" کہا جاتا تھا اور عراق کی سابقہ ​​حکومتوں نے مختلف سطحوں پر اس کا جائزہ لیا تھا۔

لیکن جنوبی کوریا کی ڈائیوو کمپنی کی جانب سے "گریٹ پورٹ آف فاؤ" کی تعمیر نے اس منصوبے کو اور بھی اہم بنا دیا ہے۔ عراق اور جنوبی کوریا کے درمیان 2019ء کے معاہدے کے مطابق جنوبی کوریا کی ڈائیوو کمپنی فاو پورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں 2.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ عراقی حکومت کے نقطہ نظر سے، "ترقی کی راہ" کے منصوبے کے آغاز کا مقصد دو بنیادی اہداف حاصل کرنا ہے: پہلا عراقی معیشت کے لیے زیادہ آمدنی کا ذریعہ تلاش کرنا، جس سے تیل پر اس کا مضبوط انحصار کم ہو اور دوسرا ملک کے جیو اکنامک کردار کو مضبوط بنانا۔ عالمی بینک کے مطابق، عراق دنیا کے تیل پر انحصار کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور پچھلی دہائی میں، 99٪ سے زیادہ برآمدات، 85٪ حکومتی بجٹ اور 42٪ ملک کی مجموعی آمدنی تیل کی آمدنی سے مربوط تھی۔

یہی وجہ ہے کہ توانائی کی منڈی کے اتار چڑھاو کا عراق پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ عراق کی آبادی میں اضافہ، جو بعض پیشین گوئیوں کے مطابق 2050ء تک 80 ملین افراد تک پہنچ جائے گی، نے عراقی حکومت کے لیے آمدنی کے ذرائع کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔ عراق کے ترقی کے راستے یا فاؤ منصوبے کا دوسرا ہدف، خلیج فارس، ایشیاء اور یورپ کے درمیان ایک مربوط خطہ کے طور پر ملک کی جغرافیائی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق کے جغرافیائی اقتصادی کردار کو مضبوط کرنا ہے۔ سیاسی اور اقتصادی فوائد عراق کی علاقائی حیثیت میں اضافہ کریں گے۔

ایک بین الاقوامی نقل و حمل کے ماہر سلمان محب کہتے ہیں: "فاؤ بندرگاہ عراق کو عالمی تجارت اور نقل و حمل کے لیے آسانی سے ایک بڑے اڈے میں تبدیل کرسکتی ہے، کیونکہ عراق نسبتاً کم فاصلہ سے بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کی بندرگاہوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ عالمی تجارت کی منتقلی کا ایک بڑا حصہ دار بن سکتا ہے۔ سلمان محبوب کے مطابق، فاؤ بندرگاہ کے مرکزی ڈیزائن میں ایک شہر، سیاحتی سہولیات اور جھیلوں کی تعمیر شامل ہے، جس سے عراقی عوام کے لیے 14 ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ہر سال عراقی خزانے میں ایک سے تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

اطالوی کمپنی پی اے جی نے فاؤ ترقیاتی روٹ منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کی ہے۔ فرانسیسی کمپنی Alstom اس کی پروجیکٹ مینیجر ہے۔ محمد شیاع السوڈانی کی حکومت نے جامع اقتصادی ترقی اور قومی آمدنی کا نیا ذریعہ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ سب سے بڑے اسٹریٹجک منصوبے کے طور پر اس منصوبے کو مضبوطی سے آگے بڑھایا ہے۔ اس منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ 17 بلین ڈالر لگایا گیا ہے، جس پر 2050ء تک کئی مراحل میں عملدرآمد کیا جائے گا۔ بلاشبہ پہلی فاؤ بندرگاہ کی تعمیر کے لیے جو رقم 2025ء تک مکمل ہونے والی ہے، تقریباً پانچ بلین ڈالر ہے، لیکن فاؤ کو فیش خابور سے ملانے اور اس کے بعد کے مراحل کی تکمیل کے اخراجات 17 ارب ڈالر ہیں۔

فاؤ بندرگاہ کے بڑے منصوبے کے پہلے مرحلے میں، جو عراق کے "ترقی کے راستے" کے اقدام کا سب سے اہم ستون ہے، اس میں 19 میٹر کی گہرائی کے ساتھ 5 پلیٹ فارمز کی تعمیر، بندرگاہ کے اندر پانی کے چینل کی کھدائی، بندرگاہ کے باہر پانی کے ایک چینل کی کھدائی اور فاو پورٹ کو خور الزبیر بندرگاہ سے ملانے والے ٹنل کی ڈرلنگ (پانی کے اندر سرنگ) اور فاو پورٹ اور ام القصر بندرگاہ کے درمیان ایک شاہراہ تعمیر کی جائے گی۔ واضح رہے کہ عراقی بندرگاہوں کے ڈائریکٹر کے مطابق یہ مرحلہ 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور عراقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2025ء تک 35 لاکھ 20 فٹ تیل کے کنٹینرز کی گنجائش والا کنٹینر ٹرمینل فاؤ ملٹری پورٹ کھول دیا جائے۔ توقع ہے کہ فاو پورٹ 2038ء تک مکمل طور پر تیار ہو جائے گا اور اس کی ہینڈلنگ کی صلاحیت سالانہ 20 فٹ کے 5.7 ملین کنٹینرز تک پہنچ جائے گی۔

دوسرے مرحلے میں جزیرہ نما فاو میں آئل ریفائنری، ایک اسٹیل فیکٹری اور دیگر صنعتیں قائم کی جانی ہیں اور تیسرے مرحلے میں نیا فاو شہر اور اس علاقے کا تجارتی اور رہائشی مرکز کھولا جائے گا۔ مجموعی طور پر، فاو گرینڈ پورٹ میں 17 کلومیٹر کی لمبائی اور 25 ملین کنٹینرز کی سالانہ گنجائش کے ساتھ 50 برتھیں، 5 کلومیٹر کی لمبائی اور 50 ملین ٹن سالانہ کی گنجائش کے ساتھ 20 غیر کنٹینر برتھیں، عومی سامان کے لیے 20 برتھیں شامل ہیں۔ 5 کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ ایک کار برتھ کی گنجائش جس میں ہر سال 400,000 کاریں رکھی جاسکیں گی۔ 230,000 بیرل یومیہ کی گنجائش کے ساتھ 6 آئل ایکسپورٹ ڈاکس کے ساتھ ساتھ 300,000 کیوبک میٹر کی گنجائش کے ساتھ تیل کی مصنوعات کی درآمد کے لیے ٹینک بھی تیار کئے جائیں گے۔

اس لحاظ سے فاو گرینڈ پورٹ 99 برتھوں کے ساتھ مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی بندرگاہ ہوگی، جو متحدہ عرب امارات کی جبل علی بندرگاہ کو پیچھے چھوڑ دے گی، جس میں 67 کنٹینر برتھیں ہیں۔ الجزیرہ کی ویب سائٹ کے مطابق، اطالوی کمپنی کے ڈیزائن کی بنیاد پر، زیر تعمیر بندرگاہ کی صلاحیت کا تخمینہ 99 ملین ٹن سالانہ لگایا گیا ہے، جو خلیج فارس کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں سے ایک اور دنیا کی دسویں بندرگاہ بن جائے گی۔ عام طور پر، اس منصوبے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ فاؤ کی بندرگاہ کو زمینی سڑکوں اور ریلوے کے نیٹ ورک سے جوڑا جایا گا جو عراق کے شمال تک پھیلے ہوئے فیش خبور کے سرحدی مقام تک پہنچے گا اور اس کے ذریعے سامان کی آمدورفت ایشیا سے یورپ اور اس کے برعکس ممکن ہو جائیگی۔

اس منصوبے کے مطابق ترکی یورپ کا گیٹ وے ہوگا اور عراقی حکام کے مطابق اس راستے سے مشرقی ایشیا اور شمالی یورپ کے درمیان تقریباً 15 دن کا سفری وقت بچ جائے گا۔ پہلے سے موجود وہ شاہراہ جو عراق کے جنوب کو عراق-ترکیہ کی سرحد سے ملاتی ہے، اس کی لمبائی 1190 کلومیٹر ہے، جبکہ اس منصوبے میں بننے والی ریلوے کی لمبائی 1175 کلومیٹر ہوگی، تاکہ موجودہ ٹرینوں کو تیز رفتار ٹرینوں (300 کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تبدیل کیا جا سکے۔ یہ ٹرانسپورٹ لائنیں 12 عراقی صوبوں سے گزریں گی۔ یہ سلسلہ جنوب سے شمال تک پھیلا ہوا ہے، جو تجارت اور مقامی انضمام کو مضبوط بنانے میں مدد کرے گا۔ عراق پورٹس جنرل کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل فرحان الفارطوسی کے مطابق اگر فاؤ یا ترقی کے راستے کا اقدام اگلے سال شروع کیا جاتا ہے تو یہ 2029ء تک مکمل ہو جائے گا۔

عراقی حکومت کا اندازہ ہے کہ یہ سڑک 2028ء تک سالانہ 3.5 ملین کنٹینرز (22 ملین ٹن کے برابر) سامان لے جا سکتی ہے۔ 2038ء تک دو لین ریلوے ٹریک بننے کا منصوبہ ہے۔ تاکہ ہر روٹ پر روزانہ 80 سے 90 ٹرینیں چلتی ہوں، جن میں سے زیادہ تر بجلی سے کام کریں گی۔ عراقی حکومت کے مطابق یہ معاملہ زمینی سڑکوں اور ریلوے کی تعمیر تک محدود نہیں رہے گا بلکہ راہداری کے ساتھ صنعتی شہر اور خدمات کی سہولیات بھی قائم کی جائیں گی۔ یہ  اسلئے بھی ضروری ہے کیونکہ زمین ہموار ہے اور ناہموار علاقوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مہنگی سرنگیں بنانے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ دوم، اس منصوبے کے سلسلے میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی وجہ سے دریا کے کنارے واقع شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے کے لیے آبادی کو ترغیب ملے گی۔ درحقیقت، سوڈانی حکومت "ترقی کے راستے" منصوبے کو ایک کثیر جہتی ترقیاتی منصوبہ سمجھتی ہے، جو اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو عراق کے اقتصادی حالات پر بہت زیادہ اثر ڈالے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1120239
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش