0
Friday 1 Mar 2024 19:10

اِک ذرا صبر کہ اِس جبر کے دن تھوڑے ہیں

اِک ذرا صبر کہ اِس جبر کے دن تھوڑے ہیں
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com  

اِس جوان کا والد پاکستان میں ایک علمی اور ادبی تشخص کا حامل انسان تھا، جس نے ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبار، جرائد، رسائل، کتابوں اور زبانی محافل کے ذریعے پاکستان کے مختلف طبقات اور کئی نسلوں کو ادب سکھایا۔ زبان سکھائی، شاعری سکھائی، بولنے کا سلیقہ سکھایا، محبت کا قرینہ بتایا، امن کا سلیقہ سکھایا اور زندگی کے آٹھ عشرے اسی خدمت میں صرف کر دیئے۔ اگرچہ اس کے والد کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ حُسن ِکارکردگی بھی عطا ہوا اور اس کے علاوہ کئی تعلیمی اداروں اور ادبی و علمی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈ اور تمغوں اور اعزازات سے نوازا گیا، جس میں سے سب سے بڑا اعزاز  ”بابائے ہندکو“  کا ٹائٹل ہے۔ رہتی دنیا اس کے والد کو دیگر اعزازات کے ساتھ اس اعزاز یعنی  بابائے ہندکو سے یاد رکھے گی۔

العلی العظیم خدا نے اُس عظیم انسان (بابائے ہندکو) کو دو بیٹوں سے نوازا تو اس نے اپنے بیٹوں کو بھی اسی راستے کا مسافر کیا، جس پر وہ خود گامزن تھا۔ یعنی علم کا راستہ، ادب کا راستہ اور امن کا راستہ۔ اگرچہ اس کی مشفقانہ اور پرامن تربیت کے اثرات اس کے اپنے تمام بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد پر بالخصوص مرتب ہوئے اور اس کے پورے خاندان نے معاشرہ سازی اور امن و محبت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا، لیکن اس نے دونوں بیٹوں کو انگلی پکڑ کر ہر مرحلے پر اپنے ساتھ رکھا اور ہر مشن سے آگاہی دیتا رہا، تاکہ اس کے دنیا سے جانے کے بعد علم و ادب اور امن و محبت کا یہ سفر جاری رہے۔ خیبر پختونخواہ کے خاص مذہبی کلچر میں اس عظیم انسان نے پہلے اپنے علم اور اخلاق سے خاص راستہ پیدا کیا، پھر اس راستے پر چل کر ایک بلند مقام بنایا۔ تحریر کے ساتھ تقریر کے فنون پر دسترس کے سبب اس شخص نے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر انسان کے دل میں خاص جگہ بنائی۔

وہ شاعر تھا، وہ محقق تھا، وہ مصنف تھا، وہ ذاکر تھا، وہ خطیب تھا، وہ فنکار تھا، وہ ڈرامہ نگار تھا، وہ مکالمہ نویس تھا۔ اپنے ان عنوانات کی وجہ سے وہ محبت کا سفیر تھا اور امن کا علمبردار تھا۔ بابائے بندکو کے اِس بیٹے اور اس کے بھائی نے ہر ممکن کوشش کی کہ اپنے والد کے نام اور مشن کو اِسی جذبے سے لے کر چلیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اور اس کے بھائی نے پی ایچ ڈی تک تعلیمی سفر طے کیا۔ اپنے شہر پشاور سے لے کر اپنے صوبے خیبر پختونخواہ کے گھر گھر تک اور پاکستان کے کونے کونے تک امن و محبت کا پیغام پہنچانے کے لیے دونوں بھائی کمربستہ رہے۔ والد محترم کی طرح بلا خوف و خطر اس پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

ہر انسان بالعموم اور پاکستانی شہری بالخصوص جانتے ہیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں امن و محبت اور اخوت و رواداری کی بات کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جہاں آپ لوگوں کو امن سے محبت سکھا رہے ہوتے ہیں، وہاں بدامنی سے نفرت سکھا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جہاں آپ امن پسند طبقات کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں، وہاں بدامنی پھیلانے والے ہر گروہ اور طبقے سے دوری اور برات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے مراحل اور ایسے ماحول میں جہاں امن و رواداری کو پسند کرنے والے طبقات آپ سے محبت کر رہے ہوتے ہیں، وہاں بدامنی اور تفریق پھیلانے والے گروہ آپ سے نفرت کر رہے ہوتے ہیں اور اگر آپ امن کے دشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا اور دہشت گردی کا بیوپار کرنے والے کے سامنے دیوار بن جاتے ہیں تو وہ یہ کانٹا ہٹانے اور دیوار گرانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

یہی کچھ بابائے ہندکو کے خاندان کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ امن کی تعلیم دینے اور محبت کی بات کرنے کے جرم میں سب سے پہلے اس خاندان اور اس کے ہم فکروں کو معاشرتی اور سماجی نفرت بلکہ بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے جس جس سے جو جو بن پڑا، اس نے وہ وہ کیا، لیکن ان کے عزم میں کوئی لغزش نہ آئی اور مشن جاری رہا۔ مشن فقط جاری نہ رہا بلکہ ارتقاء کی طرف گامزن رہا۔ امن کے دشمنوں اور دہشت گردوں کو یہ ارتقاء پسند نہ آیا تو انہوں نے  2000ء میں بابائے ہندکو کے چھوٹے بھائی اور اس جوان کے چچا انور علی رضا کو ان کے ساتھیوں سمیت گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ چونکہ انور علی نہ صرف اپنے خاندان کے ممتاز فرد تھے بلکہ پاکستان کی ایک معروف شخصیت تھے۔ اس لئے دشمنوں نے سمجھا کہ یہ لوگ امن کے مشن کو روک کر خاموش ہو جائیں گے اور گھر میں بیٹھ جائیں گے۔ لیکن بابائے ہندکو نے اپنے چھوٹے بھائی کی شہادت اور بھتیجے بھتیجیوں کی یتیمی کے باوجود کسی قسم کا خوف طاری نہیں کیا بلکہ پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ لوگوں کو امن کی طرف بلاتے رہے۔

دوسری طرف امن کے دشمن دہشت پسند طبقات بھی اپنے منفی عزائم دکھاتے رہے اور چند ہی سال بعد ایک بار پھر اس خاندان کی ممتاز شخصیت قمر عباس اور اس جوان کے شہید چچا انور علی کے بڑے بیٹے محمد علی رضا کو عین شباب کے عالم میں بھرے بازار میں شہید کر دیا۔ ان بیٹیوں سے کوئی غم کی گہرائی پوچھے، جن کے سر سے باپ کا سایہ چھِن جانے کے بعد جوان بھائی کی رفاقت بھی چھین لی گئی ہو۔ یا اس خاتون سے اس کا درد پوچھا جائے، جس کے شوہر کا سایہ ہٹ جانے کے بعد کڑیل جوان بیٹا بھی موت کی وادی میں دھکیل دیا جائے۔ لیکن اس مرتبہ بھی بابائے ہندکو نے خاندان کے ہر ہر فرد اور پوری قوم کو صبر کی تلقین کی اور کسی قسم کی جنگ یا فساد کا حکم نہیں دیا۔ تقدیر کے فیصلے دیکھیے کہ ابھی یہ سفر جاری ہی تھا کہ اس جوان کے والد یعنی بابائے ہندکو کے لیے پیغام اجل آن پہنچا اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیا سے روانہ ہوگئے اور امن کے فروغ اور بدامنوں کے خلاف جہاد جیسا مشکل ترین کام اپنے دونوں بیٹوں کے حوالے کر گئے۔

اس جوان کے بقول میرے بڑے بھائی مجاہد علی اور میں نے مل کر ایک بار پھر تازہ دم ہو کر بدامنوں اور معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف صدائے حق بلند کرنا شروع کر دی۔ یہ سفر کئی سالوں پر محیط ہے۔ اس دوران دہشت پسندوں نے مجھ پر اور میرے بھائی پر حملے شروع کر دیئے، مختلف طریقوں سے ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک بار مجاہد علی پر شدید فائرنگ کی شکل میں حملہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں مجاہد علی کے چہرے سمیت جسم کے مختلف حصوں پر گولیاں لگیں، لیکن بچانے والی ذات نے موت کے منہ سے نکال کر مجاہد علی کو نئی زندگی عطا کر دی۔ اس حملے کے بعد ہم دونوں بھائیوں بالخصوص مجاہد علی کے جذبوں میں مزید استحکام پیدا ہوا اور اس نے نئے جوش کے ساتھ امن کی آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

دہشت کا کاروبار کرنے والوں کو ہماری پرامن جدوجہد اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں مثل ِخار چبھ رہی تھیں، سو انہوں نے اس بار زیادہ شدت اور تیاری کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ اس بار صرف ہمارا گھر یا ہمارا خاندان ہی دشمن کے نشانے پر نہیں تھا بلکہ ہمارے ساتھ امن کے لیے آواز ٹھانے والا پورا طبقہ ان کے نشانے پر تھا۔ پھر یوں ہوا کہ چار مارچ 2022ء کے دن امامیہ مسجد کوچہ رسالدار پشاور میں نماز ِجمعہ کے دوران انتہاء پسندوں کے خودکش ساتھیوں نے حملہ کیا، جس میرا بڑا بھائی مجاہد علی اور میرے خاندان کے چار دیگر افراد کے علاوہ ستر سے زائد نمازیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ واقعہ مجھ سمیت تمام پسماندگان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔

ایک بار پھر موقع تھا کہ ہم شہدائے کے ورثاء اور لواحقین کے جذبات اور غصے کا منفی استعمال کرتے اور آگ و خون کے اس کھیل کو بڑھاوا دیتے اور کئی پاکستانیوں کی لاشیں گراتے، لیکن ہم نے پھر اپنے والد کی تربیت اور اپنے مکتب کی تعلیمات کو یاد رکھا اور اتنے بڑے حادثے کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیا۔ پاکستانی معاشرتی ماحول میں ایسے سانحات کے موقع پر امن کی ہدایت اور صبر کی تلقین کرنا کسی بھی لحاظ سے آسان کام نہیں، اس کے بدلے اپنوں کے طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ موت کا شکار ہونے والے لوگوں کے ورثاء اور لواحقین کی گالیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بزدل، ڈرپوک حتی کہ بے غیرت جیسے القابات سننے پڑتے ہیں۔ تبھی جا کر معاشرے کو امن کے راستے پر چلایا جاتا ہے۔
 
یہ جوان بتاتا ہے کہ میرے خاندان کے دیگر لوگوں کے علاوہ میرا ایک ہی بھائی شہید ہو کر مجھے تنہا کر گیا۔ میری ضعیف والدہ اب بھی اپنے جوان بیٹے کو یاد کرتی ہیں۔ میری یتیم بھتیجی آج بھی اپنے بابا کا راستہ دیکھتے دیکھتے سو جاتی ہے۔ میری بھابھی آج بھی اپنے شوہر کی یاد میں گریہ کناں رہتی ہے۔ یہ مصائب اپنی جگہ، میری تنہائی اپنی جگہ، مجھ سمیت ہر ہر شہید کے پسماندہ فرد کا درد اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ تمام درد امن کے عظیم راستے کے سامنے کچھ زیادہ نہیں لگتے۔ ہمیں اتنے بڑے دردناک صدموں پر صبر و قربانی کا فلسفہ اور سبق واقعہ کربلا نے سکھایا ہے، تاکہ ہر انتہاء پسند، ہر شرپسند، ہر شدت پسند، ہر برائی پسند، ہر فرقہ پرست، ہر دہشت پرست، ہر وحشت پرست، ہر شیطنت پرست فرد اور قوت کو ناکام کیا جا سکے۔

ہماری کہانی ہر اُس پاکستانی کے لیے نشانِ منزل ہے، جو امن دیکھنا چاہتا ہے، جو محبت بانٹنا چاہتا ہے، جو رواداری سکھانا چاہتا ہے، جو علم اپنانا چاہتا ہے، جو صبر کرنا چاہتا ہے، جو اسلام پھیلانا چاہتا ہے اور جو پاکستان بچانا چاہتا ہے۔ اس ہیرو کا نام زاہد علی اخونزادہ ہے اور اس کے والد کا نام مختار علی نیّر (صدارتی ایوارڈ برائے حُسن ِکارکردگی) ہے۔ آئیے زاہد جیسے لوگوں کا بازو بنیں اور امن کی آواز کو مزید بلند کریں۔
خبر کا کوڈ : 1119639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش