1
Thursday 29 Feb 2024 20:45

انسانی حقوق کی آڑ میں خون آلود ہاتھ چھپانے کی کوشش

انسانی حقوق کی آڑ میں خون آلود ہاتھ چھپانے کی کوشش
تحریر: علی احمدی

7 اکتوبر 2024ء کے دن طوفان الاقصی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں رہائشی علاقوں اور صحت اور تعلیم کے مراکز پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا اور مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے فوراً ہی اس کی فوجی امداد شروع کر دی۔ امریکی اور یورپی حکمرانوں نے یکے بعد از دیگرے صیہونی حکمرانوں سے اعلان ہمدردی کیلئے مقبوضہ فلسطین کے دورے کرنے شروع کر دیے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے صیہونی حکمرانوں کی مدد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی اور حتی بن گوریون ہوائے اڈے اور امریکہ کے ہوائی اڈوں کے درمیان مسلسل پروازیں جاری ہیں جن کے ذریعے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت وسیع پیمانے پر اسلحہ اور فوجی سازوسامان اسرائیل پہنچایا جا رہا ہے۔
 
یورپی ممالک، خاص طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے تمام حدیں پار کر دیں اور غاصب صیہونی رژیم کو ممکنہ شکست سے بچانے کیلئے دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کیا۔ انہوں نے اس کام میں حتی یوکرین کو بھی بھلا دیا جس کے نتیجے میں کیف حکام کی صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ خطے کی جانب چند جنگی بحری بیڑے اور جنگی طیارہ بردار کشتیاں روانہ کی گئیں جن میں دنیا کے سب سے بڑے جنگی بیڑے بھی شامل ہیں۔ فولادی گنبد نامی میزائل ڈیفنس سسٹم کے ضروری آلات اور میزائلوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں توپ کے گولے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو چند نئے ایئر ڈیفنس سسٹم بھی مہیا کئے گئے۔ بڑی تعداد میں فوجی ہیلی کاپٹر، ڈرون طیارے، جاسوسی جہاز، مقبوضہ فلسطین اور خطے پر جاسوسی پروازیں نیز اسرائیلی جنگی کشتیوں کی ضرورت کا سامان بھی اس فوجی امداد کا حصہ تھے۔
 
گذشتہ پانچ ماہ کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد کسی تعطل کے بغیر جاری ہے۔ یہ امداد ایسے وقت فراہم کی جا رہی ہے جب امریکہ اور یورپ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج اور مظاہروں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کرنے والے عوام اپنی حکومتوں سے اسرائیل کی فوجی امداد روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن مغربی حکومتیں اپنی عوام کی رائے سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اس کی فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب جب صیہونی حکمرانوں نے غزہ کے جنوب میں واقع رفح شہر پر بھی فوجی حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے تو مغربی حکمران کی جانب سے انسانی حقوق کے حق میں سیاسی بیان بازی میں بھی شدت آ گئی ہے۔
 
جیسے جیسے صیہونی حکمرانوں کی جانب سے رفح پر زمینی حملے کی دھمکیوں میں شدت آ رہی ہے مغربی ممالک میں عوامی احتجاج بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مغربی ذرائع ابلاغ بھی اپنے حکمرانوں کے انسانی حقوق سے متعلق بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک بھی غزہ میں صیہونی جرائم کے مخالف ہیں اور اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایسے وقت جب گذشتہ پانچ ماہ سے صیہونی حکمران امریکی اور مغربی اسلحہ کے ذریعے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کرنے میں مصروف ہیں، مغربی حکمرانوں کو اب یاد آیا ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کو بین الاقوامی قوانین اور امریکی اسلحے کا غلط استعمال نہ کرنے کا پابند کریں۔ امریکی خبررساں ادارے ایکسیوس نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے صیہونی رژیم سے اپنے اسلحہ کو عام شہریوں کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت طلب کی ہے۔
 
اسی طرح فرانس کے وزیر خارجہ نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں رفح پر ممکنہ صیہونی حملے کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔ پیرس نے اس بیانیے میں دعوی کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی بدستور ان کی پہلی ترجیح ہے۔ فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون نے اس بیانیے میں کہا ہے: "اہل غزہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی امداد کے محتاج ہیں اور کسی تاخیر کے بغیر رفح بارڈر کھل جانا چاہئے۔" فرانسیسی حکام ایسے وقت صیہونی رژیم کی شدید مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں جب ان کے عملی اقدامات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کا یہ سیاسی موقف فرانس میں حکومت مخالف گروہوں کی جانب سے اسرائیل کی فوجی امداد بند کرنے کیلئے شدید احتجاج کے بعد سامنے آیا ہے۔ فرانس 24 کی رپورٹ کے مطابق این جی اوز اور فرانس کے بائیں بازو کے گروہوں نے میکرون حکومت پر جنگ کے دوران اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے پر نظرثانی کیلئے دباو بڑھا دیا ہے۔
 
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مغرب واقعی غزہ کے بچوں کیلئے پریشان ہے؟ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے ویسلے نیبنزیا نے سکیورٹی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے امریکہ کو غزہ میں 30 ہزار عام شہریوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا: "کیا امریکہ واقعی غزہ کے بچوں کیلئے پریشان ہے۔ غزہ کے بچے یورپی یونین کیلئے جو انسانی حقوق کے دفاع کا دعویدار ہے، کمترین اہمیت نہیں رکھتے۔ غزہ میں دنیا میں سب سے زیادہ بھوک پائی جاتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بھوک کو اسلحہ کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ مغربی ممالک نے انروا کی مدد سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔"
خبر کا کوڈ : 1119408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش