0
Tuesday 27 May 2014 22:51

دشمن کو پہچانو

دشمن کو پہچانو
تحریر: محمد علی نقوی

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے عید مبعث کی مناسبت سے حکام اور عوام نیز قرآن کریم کی قرائت و تفسیر کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے والے حفاظ و قراء اور تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفرا سے خطاب میں فرمایا کہ مسلمانوں میں اختلافات اور شیعہ فوبیا نیز ایران فوبیا کو ہوا دینے سے سامراج کا بنیادی مقصد اپنے مسائل پر پردہ ڈالنا اور صیہونی حکومت کی حفاظت کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے فرمایا کہ مسلمان قوموں بالخصوص ان کی سربرآوردہ شخصیتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تدبیر و بصیرت اور امت اسلامی کے دشمنوں کی صحیح شناخت حاصل کریں اور ان واضح حقائق کو اچھی طرح سمجھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عالم اسلام کی یہ بنیادی ضرورت ہے کہ وہ فکر و تدبر اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے امت اسلامی کے حقیقی دشمنوں کی شناخت حاصل کرے، نیز اتحاد اپنا کر عقیدتی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے پرہیز کرے۔

رہبر انقلاب نے اس خطاب میں امت مسلمہ کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ سب سے اہم مسئلہ دشمن کی شناخت ہے، کیونکہ جب تک دشمن کی پہچان نہیں ہوگی اس سے مقابلے کا مسئلہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اسلام دشمن طاقتوں بالخصوص امریکہ کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ امریکہ نے اب اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا ہے۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے دنیا کے پرامن ماحول میں دو قسم کے خطرے، اس ملک کی زندگي اور ساکھ کے لئے مشکل ساز بنے ہوئے ہيں، ایک تو بعض بڑی طاقتوں کی  صلاحیتیں اور حکمت عملی ہے، کہ جو امریکہ کے ساتھ جنگ کرسکتی ہیں، اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری عناصر ہیں جو امریکی امنگوں اور نظریات کے سخت مخالف ہيں اور جنہوں نے امریکہ کے ساتھ نامتناسب جنگ کے امکان کے لئے حالات فراہم کر دیئے ہيں۔ اس بناء پر امریکہ کے سابق نائب وزیر دفاع "پال وولفویٹس" کی نظر ميں امریکی وزارت دفاع کے حکام کے درمیان جنگ کا نیا مفہوم عملی ہوچکا ہے۔ اس منظرنامے میں دفاع اور ڈپلومیسی کا مفہوم، اب مفید کردار کا حامل نہیں رہا بلکہ روک تھام کی حکمت عملی کی صورت میں ابھر رہا ہے۔

اس وقت دنیا کو لاحق خطرات تین صورتوں میں موجود ہیں, دہشت گرد عناصر، غیر قانونی حکومتیں اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار، کہ جو مشکل حالات پیدا کر رہے ہيں اور امریکہ اپنے معیاری فوجی ساز و سامان اور فوجیوں کے ذریعے ان پر قابو پانے کی توانائی نہیں رکھتا۔ نتیجے میں ان سے مقابلے کے لئے روک تھام کی اسٹریٹجی سے استفادے کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کے عملی ہونے کے لئے امریکہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے شعبے میں منصوبے کی ضرورت ہے۔ اپنے سیاسی، فوجی اور اقتصادی اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ نیا فرضی دشمن دنیا کو متعارف کرائے۔ اسلام فوبیا منصوبہ جو صہیونیوں کی حمایت سے تیار کیا گيا تھا, امریکہ کی اس نئی پالیسی کا آغاز تھا۔ بہت سے سیاسی مبصرین، 20 ستمبر 2001ء ميں امریکی کانگریس کے اراکین کے اجتماع میں بش کی تقریر کا موازنہ، 12 مئی 1947ء میں ہری ٹرومن کی تقریر اور اثرونفوذ میں رکاوٹ کی اسٹریٹجی کے اعلان سے کرتے ہیں۔ ٹرومن کی حکمت عملی کمیونزم سے عالمی مقابلے کے لئے امریکہ کے عزم اور سوویت یونین کی جمہوریاؤں کے اتحاد کے اثر و رسوخ میں توسیع کی روک تھام کی غماز تھی۔ 

بش نے بھی اپنی تقریر ميں امریکہ کی اہم اسٹریٹجی کو بیان کیا اور اپنے زعم ناقص میں دہشت گردی کو شکست دینے اور ان کو پناہ دینے والے ملکوں اور حامی حکومتوں کے خلاف تمام وسائل و ذرائع بروئے کار لانے پر مبنی اپنے عزم  کا اظہار کیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ امریکہ کے نئے فرضی دشمن کے اقدام کے محور و مرکز کو، تیسری دنیا اور خاص طور پر مشرق وسطٰی کے علاقے اور مسلم ملکوں ميں تلاش کیا گيا۔ گیارہ ستمبر 2011ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتوں کے دہشت گردانہ حملے میں تباہ ہونے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ اس کے بعد سے تمام ملکوں کو دو گروہوں میں یعنی امریکہ کے دوست اور دشمن ملک میں تقسیم کرتے ہیں، اور جو بھی ممالک دہشت گردی کی حمایت کریں گے، ان کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ بہرحال پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت مسلمانوں کو اس واقعے کا اصلی ذمہ دار قرار دیا گيا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے دو دنوں کے بعد اخبار ہرالڈ ٹریبون نے ایک مقالے میں جان وینکر نے لکھا تھا کہ اس واقعے نے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے ٹکراؤ کو واضح کردیا ہے۔

تسلط پسندانہ نظام کے ذرائع ابلاغ اور سامراجی عناصر کے توسط سے اسلام فوبیا کی ایسی منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ اس وقت کے اٹلی کے وزیراعظم نے ایک بیان میں مغربی تمدن کو اسلامی تمدن سے زیادہ مستند اور معتبر قرار دیا اور مسلمانوں کی توہین کی۔ اس عمل کے جاری رہنے میں امریکہ کے مفکر فوکویاما نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے ایک ماہ بعد اخبار گارڈین کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اسلام صرف ایک ایسا ثقافتی نظام ہے جو مغربی جدیدیت کو دھمکا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، جدیدیت کے مقابلے میں اسلامی ملکوں کی استقامت و مزاحمت توڑنے کے لئے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع ویلیم کوہن بھی کہا کہ اسلام کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ، چوتھی عالمی جنگ ہے۔ انہوں نے تیسری عالمی جنگ کو سرد جنگ کے دور سے اور مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے درمیان جنگ کو چوتھی عالمی جنگ سے تعبیر کیا۔

گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے ذرائع ابلاغ اور حکمراں عناصر نے اس واقعے سے متعلق خبروں اور اطلاعات کو اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیا اور اسے پیش کیا اور دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اتحاد قائم کرنے کا مطالبہ کیا، اور اس منصوبے کی آڑ میں اسلام فوبیا پر تیزی سے عملدر آمد کیا گيا اور ایسے حالات بنائے گئے کہ امریکی حکام کا ہر اقدام قانونی حیثیت پاگيا۔ اس طرح سے مشرق وسطٰی کے علاقے پر تسلط کے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے حالات فراہم کئے گئے اور گیارہ ستمبر کے واقعے کے  بعد ایک ماہ سے کم کے عرصے میں یعنی سات اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکہ نے حملے کا آغاز کر دیا۔

امریکی حکومت کا پہلا اقدام افغانستان پر یکطرفہ حملہ اور اور طالبان کو سرنگوں کرنا تھا۔ یہ حملہ ایسی حالت میں شروع کیا گيا کہ امریکہ کو نہ صرف عالمی سطح پر حمایت حاصل نہيں تھی بلکہ عالمی رائے عامہ بھی اس کی مذمت کر رہی تھی۔ اس اقدام کے بعد امریکہ نے بعض ملکوں منجملہ عراق کو بھی دہشت گردی کے حامی ملکوں کی فہرست ميں شامل کرلیا اور پھر اس کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے عالمی سطح پر اس طرح سے یقین دہانی کرانی شروع کی کہ عراق کا القاعدہ سے رابطہ ہے اور عراق نے مہلک ہتھیاروں سے القاعدہ کو مسلح کیا ہے۔ اس طرح سے امریکہ نے ایک بار پھر دہشت گردی سے مقابلے، عالمی امن کے قیام اور جمہوریت اور آزادی دیئے جانے جیسے نعروں کے سائے میں 21 مارچ 2003ء کو عراق پر فوجی حملہ کردیا اور اس ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس وحشیانہ حملے کو خلیج فارس کی دوسری جنگ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی، جس کے نتائج عراقی عوام کے لئے انتہائی درناک اور ناقابل تصور تھے۔

مبصرین کے نقطۂ نگاہ سے عراق پر فوجی قبضہ، امریکی حکام کی ایک سب سے بڑی غلطی شمار ہوتی ہے اور امریکہ اسی طرح کی غلطی ایران کے حوالے سے بھی دہرا رہا ہے۔ امریکہ ایران کے خلاف مسلسل اقدامات سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، کیونکہ وہ ایران کو اسلام کی حفاظت کے لئے قائم سب سے مضبوط اور پہلی مستحکم دیوار سمجھتا ہے۔ امریکہ کے انہی اقدامات کی وجہ سے رہبر انقلاب ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ دشمن کو پہچانو کیونکہ عالمی سامراج نے اسلام کو اپنا دشمن قرار دے دیا ہے۔ آپ نے ایران کے نئے سال کے آغاز میں بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا اور امریکہ کے جرائم گنواتے ہوئے آپ نے امریکی حکومت کی ماضی میں کم از کم اسی 80 سال پر محیط سیاہ کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں خونریز جنگوں کی آگ بھڑکانا اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا، بین الاقوامی دہشت گردی کی پشت پناہی، ریاستی دہشت گردی کی بے دریغ حمایت، جس کا نمونہ جعلی، غاصب اور جرائم پیشہ صیہونی حکومت ہے، عراق پر حملہ اور دسیوں ہزار شہریوں کا قتل عام، افغانستان پر حملہ، بلیک واٹر جیسی قاتل ایجنسیوں کی تشکیل، انتہا پسند تکفیری تنظیموں کی تشکیل اور ان کی حمایت، امریکہ کے کالے کرتوتوں کے محض چند نمونے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ امریکہ کے اس کریہ المنظر اور جرائم پیشہ چہرے کو میک اپ کے ذریعے کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے خلاف امریکی حکومت کے معاندانہ اقدامات کی طویل تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 19 اگست 1953ء کی بغاوت سے لیکر 1979ء تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے وقت سے لیکر اب تک ملت ایران دائمی طور پر امریکہ کی خباثتوں، ایذاؤں، سازشوں اور پابندیوں کا سامنا کرتی رہی ہے اور یہ فہرست ملت ایران کے خلاف امریکی حکومت کی ان مذموم حرکتوں کا چھوٹا سا حصہ ہے، جو اب بھی جاری ہیں۔ عالم اسلام اور امت مسلمہ کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ امریکہ کی ایران سے دشمنی کی اصلی اور بنیادی وجہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔
خبر کا کوڈ : 386912
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش