0
Saturday 2 Mar 2024 19:35
منفی سوچ سے اجتناب

کامیابی کی چابیاں(3)

کامیابی کی چابیاں(3)
تحریر: ایس ایم شاہ

کامیابی کی تیسری چابی منفی سوچ سے نجات پانا ہے۔ منفی سوچ دیمک کی مانند انسانی ذہن اور جسم کو مکمل کھا جاتی ہے۔ جب آپ اپنے ذہن کو خالی چھوڑے رکھیں گے تو ایک ایک کرکے منفی سوچ آپ کے ذہن پر قبضہ جما لے گی۔ مثال کے طور پر میں فلاں کام نہیں کرسکتا ہوں، معاشرے کے تمام افراد برے ہیں، میرا کوئی خیر خواہ نہیں، میرا کوئی مستقبل نہیں، ناکامی میرا مقدر ہے، میں کسی بھی میدان میں انسانیت کے لیے کوئی بھی خدمت انجام نہیں دے سکتا ہوں، معاشرے میں میری کوئی حیثیت نہیں، سارے گھر والے میری طرف حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، میرے سارے رشتے دار میرے دشمن ہیں، میں تعلیمی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتا ہوں، میں کوئی بھی ہنر سیکھنے سے عاجز ہوں، میرے اندر گھر بار سنبھالنے کی صلاحیت نہیں، پڑھ لکھ کر کسی مقام تک پہنچنے کی میرے اندر اہلیت نہیں، خواہ مخواہ میں تعلیم کے نام پر زحمتیں برداشت کرنے کا کیا فائدہ۔؟

کیونکہ بعد میں کوئی ملازمت مجھے ملے گی نہیں اور کاروبار کرکے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں، میری کامیابی کسی سے برداشت نہیں ہوتی، میرے اوپر سحر و جادو کیا ہوا ہے، جن بھوت کا اثر میرے پورے وجود میں سرایت کرچکا ہے، میرے دشمنوں نے میرے گھر کے اندر غلط تعویذ رکھے ہیں، جس کے باعث میں کچھ بھی نہیں کرسکتا ہوں، میں اس دنیا میں تنہائی کا شکار ہوں، کیونکہ یہاں میرا کوئی بھی خیر خواہ نہیں۔ معاشرے کے کسی بھی فرد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ کسی بھی وقت وہ میرے ساتھ خیانت کرسکتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں کسی سے مشاورت نہیں کرسکتا، کیونکہ معاشرے کے تمام افراد میرے بدخواہ ہیں، معاشرے کو سدھارنے کے حوالے سے میں بے بس ہوں، کیونکہ کوئی بھی شخص میری باتیں سننے کو تیار نہیں۔

میری مشکلات اتنی سخت ہیں کہ کوئی بھی ان کو حل نہیں کرسکتا۔ میری بیماری اتنی خطرناک ہے کہ اس کا مکمل علاج ممکن نہیں، میری مالی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے، جس سے نجات کبھی بھی نہیں مل سکتی، میرے بچے میرے کنٹرول سے اس حد تک نکل چکے ہیں کہ اب ان کو سدھارنے سے میں عاجز ہوں، میں مشکلات کے گرداب میں اس طرح پھنس چکا ہوں، جس سے وقتی طور پر ذہنی تسکین کے لیے مجھے منشیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ کبھی کبھار معدے کی بیماری میں مبتلا افراد کے ذہن میں بھی اس بیماری کی وجہ سے عجیب قسم کی منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ ایسی منفی سوچ آپ کے ذہن کو مفلوج بنا دیتی ہے اور کسی بھی مشکل سے روبرو ہونے کی صورت میں اس مشکل اور مصائب و آلام کے مقابلے میں آپ سے استقامت (Resistance) کرنے کی صلاحیت کو ہی چھین لیتی ہے، مشکلات کے  بھنور سے نکل کر ساحلِ نجات تک پہنچ جانے کی امید کی کرن کو ہی بجھا دیتی ہے۔

الغرض منفی سوچ آپ کو کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ منفی سوچ انسان کے لیے ایسی جان لیوا بیماری ہے، جو انسان کو تڑپا تڑپا کر مار دیتی ہے۔ منفی سوچ جیسی خطرناک بیماری کا واحد علاج مثبت سوچ اپنانا ہے۔ آپ ہر منفی سوچ کے علاج کے لیے اسی سوچ کے مقابلے میں مثبت سوچ اپنانے کی کوشش کیجئے، وقتی طور پر ایسا کرنا شاید آپ کے لیے ذرا مشکل ہو جائے، لیکن جب آپ مصمم ارادہ کر لیتے ہیں کہ مجھے کسی صورت منفی سوچ سے اپنے ذہن کو آزادی دلانا ہے تو آپ روزانہ کی بنیاد پر ایک ایک کرکے منفی سوچوں کا مقابلہ کریں۔ اسی حساب سے آپ کو تسکین قلب کا احساس ہوگا۔ بہت ساری غیر اخلاقی، غیر شرعی اور سماجی برائیاں بھی منفی سوچ کی وجہ سے جنم لیتی ہیں، جب ہم ہمیشہ دوسروں کے اندر موجود کمزوریوں کی چھان پھٹک کرتے رہیں گے تو دوسروں کی اچھائیاں بھی نادیدہ قرار پائیں گی۔

دوسروں کی غیبت ہی اسی وجہ سے کی جاتی ہے، کیونکہ ہم اپنی منفی سوچ کو اپنے تاثرات کی صورت میں دوسروں تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں پر تہمت ہم اس وجہ سے لگاتے ہیں، کیونکہ ہماری منفی سوچ دوسروں کی شخصیت کشی پر ہر وقت ہمیں اکسا رہی ہوتی ہے۔ دوسروں پر الزام تراشی ہم اسی وجہ سے کرتے ہیں، کیونکہ ہماری منفی سوچ کے باعث دوسروں کی بے داغ شخصیت ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بعض افراد چوری اس وجہ سے کرتے ہیں، کیونکہ ان کی منفی ذہنیت کے باعث انہیں محنت مزدوری کرنا اور حلال طریقے سے روزی کمانا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے تو اس وقت بغیر کسی محنت کے چوری کرکے کھانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ بسا اوقات تو ظاہری اعتبار سے ایسے افراد اپنی منفی سوچ، مثبت سوچ کے لبادے میں پیش کرتے ہیں، لیکن جہالت کے باعث انہیں اپنے جرم کی قباحت کا احساس تک نہیں ہوتا۔

ایک شخص چوری کیا کرتا تھا۔ پھر چوری کے مال کو غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ جب اس سے استفسار کیا گیا تو بتایا کہ میں چوری کرکے ایک گناہ کرتا ہوں تو میرے نامہ اعمال میں فقط ایک برائی لکھی جاتی ہے، جبکہ میں کوئی اچھا کام انجام دیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس ایک نیکی کے بدلے میں مجھے دس برابر اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔ لہذا ایک برائی کے بدلے میں ایک نیکی۔ باقی نو اضافی نیکیاں میرے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گے۔ بنابریں میرا یہ سودا خسارے کا نہیں بلکہ  فائدے کا سودا ہے۔ درحقیقت اسے اتنا بھی احساس نہیں کہ جس ایک اچھائی کے بدلے میں دس برابر اجر ملتا ہے، وہ اس وقت ہے جب انسان اپنے نفس سے مقابلہ کرکے اپنا مال غریبوں میں بانٹ دے، جبکہ چور خود سے مال حرام کھانے کے علاوہ دوسروں کو بھی چوری کا مال کھلا کر کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اسی طرح اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسلام نے اسے فاش کرنے سے منع کیا ہے اور "افشائے منکر" کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ "ستار العیوب" ہے، یعنی اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے والا ہے، اسی طرح مؤمنین کو بھی چاہیئے کہ کسی دوسرے مؤمن کی کسی غلطی کو فاش کرکے اسے دوسروں کے سامنے رسوا کرنے سے اجتناب کریں، جبکہ ہماری منفی سوچ ہمیں اکساتی ہے کہ یہی موقع غنیمت ہے کہ فلاں شخص کو سب کے سامنے ذلیل و رسوا کیا جائے۔ لہذا جب تک دوسروں کے سامنے کسی کی شخصیت پر کیچڑ نہ اچھالیں تو اس وقت تک ہمیں چین نہیں آتا۔ بنابرایں ہم اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے دوسروں کے بارے میں منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کسی شخص کی غلطی اور گناہ کو دوسروں کے سامنے ظاہر کیا جاتا ہے تو اس کے ایک ساتھ دو (side effect) ہوتے ہیں۔ ایک طرف کسی مؤمن کی عزت نفس مجروح ہو جاتی ہے تو دوسری طرف اس گناہ کی قباحت اور اس جرم کی حساسیت دوسروں کے نزدیک کم ہو جاتی ہے۔

بسا اوقات ایسا گھناؤنا جرم جس کے ارتکاب کا عام طور پر لوگ تصور ہی نہیں کرتے، جب کسی کی طرف اس قبیح ترین کام کو انجام دینے کی نسبت دی جاتی ہے تو جو افراد اس بات کو سن لیتے ہیں تو ان کے ذہن میں اس برے کام کو انجام دینے کے حوالے سے جو قباحت پائی جاتی ہے، وہ بہت حد تک کم ہو جاتی ہے، اسی حساب سے جتنا اس گناہ کے انجام دینے کی خبر کو زیادہ پھیلائیں گے، اتنا ہی وہ گناہ عام ہوتا جائے گا۔ اسی وجہ سے اسلام نے "اشاعہ فحشاء" کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ آج کل الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے تو اس گناہ کو  پَر فراہم کر دیا ہے۔ لہذا جب تک ہم اپنے ذہن کو منفی سوچ کی آلودگی سے پاک نہیں کریں گے، اس وقت تک اس میں اچھی سوچ پنپ نہیں سکے گی، جب اچھی سوچ ایجاد نہیں ہوگی تو درنتیجہ ہمیں اچھا کام انجام دینا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ لہذا ہمیں منفی سوچوں کو ایک ایک کرکے مثبت سوچ میں بدلنا ہوگا۔ تب ہمارے کردار میں بھی نمایاں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی اور ہر قدم پر کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
خبر کا کوڈ : 1120050
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش