9
0
Thursday 21 Mar 2013 01:14

شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت معاشرے اور امت پر شہداء کا قرض ہے، علامہ سید سبطین حسینی

شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت معاشرے اور امت پر شہداء کا قرض ہے، علامہ سید سبطین حسینی
علامہ سید محمد سبطین حسینی کا تعلق بینادی طور پر سرزمین مقاومت و سرزمین شہداء پارا چنار کے مضافاتی گاؤں زیڑان کے ایک مذہبی و علمی گھرانے سے ہے، آپ کے والد مولانا سید فضل علی شاہ قائد شہید ملت جعفریہ علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے نجف میں کلاس فیلو رہے، جبکہ آپ کے دادا سید عباس بھی عالم دین گزرے ہیں۔ علامہ سید محمد سبطین حسینی نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول پارا چنار سے پاس کیا۔ ہائی سکول پارا چنار کی طرف سے آپ پورے قبائلی علاقے فاٹا سے بہترین مقرر یا ڈیبٹر کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ایک ذہین طالب علم تھے۔ انٹر ڈگری کالج پارا چنار سے کیا، سکول کے زمانے میں 1986ء میں دور قائد شہید (رہ) میں آئی ایس او ہائی سکول پاراچنار پہلے محب یونٹ کے بانی اراکین میں سے رہے ہیں، ڈگری کالج پارا چنار میں بھی آئی ایس او کے آرگنائزر رہے۔ 1993ء سے 2004ء تک قم المقدس (ایران) کے مشہور مدرسہ امام خمینی (رہ) سے دینی علوم حاصل کئے اور قرآن و احادیث میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرکے قم المقدس سے واپس پاکستان آئے، لیکن اب بھی علم اور تبلیغ دین و فلاحی کاموں کے لئے قم المقدس کے بعض فارغ التحصیل پاکستانی طلاب احباب کے بنائے ہوئے القائم (ع) ٹرسٹ میں فعال کردار ادا کرر ہے ہیں۔ علامہ سید محمد سبطین حسینی 2004ء تا 2006ء جامعتہ الرضا (ع) بارہ کہو اسلام آباد اور 2006ء تا 2008ء مدرسہ شہید عارف الحسینی (رہ) پشاور میں تدریس سے بھی وابستہ رہے، تاہم 2010ء سے القائم (ع) ٹرسٹ کے زیر انتظام شہداء کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ٹیکسلا میں زینبیہ (س) اکیڈمی کی بنیاد رکھنے اور مسئول کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید محمد سبطین حسینی سے شہداء کے یتیم بچوں کے ادارے زینبیہ (س) اکیڈمی اور علاقائی، ملکی و بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کے پیش خدمت ہیں۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: آپ نے بہترین تعلیمی ریکارڈ سکول و کالج میں بہترین طالبعلم ہونے کے باوجود دینی تعلیم کیلئے مدرسے کا رخ کیسے کیا، حالانکہ پاکستان میں اکثر ذہین طلبہ دینی مدرسوں کی طرف جانے کی بجائے یونیورسٹیز اور پروفیشنلز کالجز میں چلے جاتے ہیں۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ میری دینی تعلیم کی طرف رغبت قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی خواہش کی مرہون منت ہے، چونکہ قائد شہید میرے والد مرحوم کے نجف میں کلاس فیلو تھے، اس لئے میرے میٹرک کرنے کے بعد اکثر میرے والد سے تذکرہ اور تاکید کرتے تھے کہ آقای سبطین کو کب دینی تعلیم کے لئے قم بھیج رہے ہو۔ دوسری طرف میرے والد اور دادا مرحوم بھی تبلیغ دین سے وابستہ تھے، اس لئے یہ دوسرا پہلو بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے استاد محترم علامہ جواد ہادی کا بھی اہم کردار رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت، تعلیم و تربیت کے ادارے و ہاسٹل ’’زینبیہ (س) اکیڈمی کے مسئول کی حیثیت سے اس کے اغراض و مقاصد بیان کریں۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: قم المقدس سے کچھ فارغ اور کچھ موجودہ پاکستانی طلاب نے پاکستان میں تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود بالخصوص شہداء کے یتیم بچوں کی تعلیم و تریبت کے لئے القائم (ع) ٹرسٹ کی طرف توجہ دی۔ القائم (ع) ٹرسٹ کا مقصد تعلیم اور فلاحی کاموں کے علاوہ تربیت و تبلیغ دین کے لئے دینی مدارس کا قیام جیسے امور شامل ہیں، کے زیر انتظام ٹیکسلا میں زینبیہ (س) اکیڈمی کے نام سے ایک فلاحی منصوبے کا آغاز کیا۔ جس کا بنیادی مقصد پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور فاٹا کے شہداء کے بچوں کو اعلٰی تعلیم و تربیت اور مفت قیام و طعام یعنی زندگی کی ہر ضرورت کتاب و قلم سے لے کر یونیفارم و دیگر لوازامات، ہاسٹل، گھر جیسا ماحول و اقامت گاہ مہیا کرنے کی کوشش ہے۔ اس ادارے میں ہنگو، علاقہ بنگش اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی پارا چنار کے شہداء کے تیس یتیم بچے رہائش پذیر ہیں۔ جنہیں مفت تعلیم فی الحال دیگر اعلٰی پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں دی جا رہی ہے اور انشاءاللہ تعداد بڑھنے پر مستقبل میں اپنا سکول بھی شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ علاوہ ازیں ہمارا ہدف ڈیرہ اسماعیل خان کے شہدا بھی ہیں۔ ہم آپ ’’اسلام ٹائمز‘‘ کی وساطت سے بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہر سال مارچ میں یعنی ماہ رواں چوتھی اور پانچویں جماعت کے طالبعلموں کے لئے ہمارے ادارے میں داخلے جاری ہیں، اس لئے مستحق شہداء کے یتیم بچے یا ان کے رشتہ دار رابطہ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں علماء اور دیگر ملی احباب بھی مختلف فلاحی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، آپ نے شہداء و یتیموں کے لئے کام کرنے والے کس علاقائی یا ملکی ادارے سے متاثر ہو کر یہ نیک کام شروع کیا۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: دیکھئے شہداء اس ملت و ملک اور قوم کے لئے اپنی جان و خون کا نذرانہ دے کر آبیاری کرتے ہیں۔ ہماری اس طرف آنے کی وجہ شہداء و یتیموں کے لئے کام کرنے والے کسی علاقائی و ملکی ادارے سے متاثر ہونا نہیں، بلکہ ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری کے علاوہ امام راحل امام خمینی (رہ) کا یہ اہم فرمان کہ ’’تعلیم کے بغیر تربیت اور تربیت کے بغیر تعلیم بے مقصد ہیں۔‘‘ اسی طرح رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا فرمان کہ ’’شہداء کی یاد و تذکرہ شہادت سے کم نہیں۔‘‘ یہاں اگر ہم شہداء کے یتیم بچوں کی اعلٰی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کریں تو ہم ان شہداء کی ارواح سے شرمندہ ہونگے، کیونکہ ان کے شہید والدین اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوا کر ڈاکٹر، انجنئیر، سائنسدان، پائلٹ، ٹیچر، عالم نہ جانے کیا کیا خواب وابستہ کئے تھے۔ اس لئے رہبر کا فرمان کہ شہداء کا تذکرہ و یاد شہادت سے کم نہیں، دراصل اس معنی میں کہ معاشرے اور ملت پر شہداء کے یتیم بچوں اور خانوادوں کی کفالت ایک فرض اولین ہے۔ 

اسلام ٹائمز: زینبیہ (س) اکیڈمی میں رہائش پذیر شہداء کے یتیم بچوں میں کس حد تک مستحق شہداء کے بچے ہیں، چند مثالیں اگر بیان کریں۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: انشاءاللہ آنے والے ماہ اپریل کے پہلے عشرے میں ہم زینبیہ (س) اکیڈمی میں سالانہ تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔ جس میں شہداء کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے چند پہلو اور ایک شہید کے یتیم فرزند کا معاشرے کی آنکھیں کھولنے کے لئے ‘‘امام زمانہ (عج) کی خدمت میں ایک خط‘‘ بھی پیش کیا جائے گا، اس تقریب میں شرکت کے لئے دعوت عام ہے، جہاں لوگ خود آکر اپنی آنکھوں سے زینبیہ (س) اکیڈمی کی فعالیت دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ادارے میں رہائش پذیر اکثر طالبعلم نہایت ہی مستحق شہداء کے بچے ہیں۔ مثلاً لوئر کرم ایجنسی بستو نامی گاؤں کے دو شہداء بھائیوں صادق علی و حامد علی کے یتیم بچے ان دو شہداء کا تیسرا بھائی اپنے بھائیوں کی جدائی و شدت غم سے ذہنی توازان کھو بیٹھا ہے۔ اسی طرح ابراہیم زئی کے ایک ہی خاندان کے تین شہداء کے فرزندان، خیواص کے شہید عابد کا بیٹا، جس کا محض ایک بوڑھا دادا رہ گیا ہے۔ اسی طرح زیڑان کے علاقے سے شہید کا فرزند ثقلین حسین نامی طالبعلم جب کہ حال ہی میں ہمارے ادارے سے ایک شہید کے دو ایسے یتیم بھائیوں کا تعارف ہوا ہے کہ جن کا اس دنیا میں کفالت کیلئے کوئی بھی نہیں۔ مذکورہ مستحق ترین شہید کے فرزندان ان دو یتیم بھائیوں کے لئے ہم نے خصوصی طور پر اپنے ادارے زینبیہ (س) اکیڈمی کے معیار کہ ہم چوتھی و پانچویں جماعت کے طالبعلموں کو داخل کرواتے ہیں، کو اس خصوصی کیس میں تبدیل کرکے ہنگامی بنیادوں پر اس شہید کے فرزندان، ان دو یتیم بھائیوں کے لئے داخلہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پارا چنار سمیت پاکستان بھر میں تشیع کے قتل عام کی وجہ سے شہداء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے، علاوہ ازیں کیا حکومت اور سکیورٹی ادارے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: پارا چنار سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں تشیع کے قتل عام اور نسل کشی کی بنیادی وجہ استعمار و استبداد کا انقلاب اسلامی اور فکر خمینی (رہ) سے خائف ہو کر اپنے زرخرید غلاموں القاعدہ و طالبان جن کو استعمار نے امام خمینی (رہ) کی بڑھتی ہوئی عالمی شہرت اور یورپ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کرنے کے لئے بقول رہبر معظم دین کا ایک کارٹون و بدنما اور وحشی صورت میں پیش کرکے امام خمینی (رہ) کے مستضعفین و مظلومین کے لئے پیغام کہ ’’انقلاب ما انفجار نور بود‘‘ یعنی انقلاب اسلامی اور اسلام ناب محمدی (ص) نور کے شعلوں کی طرح پھیلے گا۔ دراصل طاغوت استعمار و استبداد کی شیعہ نسل کشی اسی نور کو روکنے کی ناکام کوشش اور امت مسلمہ کے وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ جہاں تک حکومت و سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کا تعلق ہے تو آئین پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کے تحت عوام کے جان و مال، عزت و ناموس کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ تاہم افسوس کہ یہ ادارے اس فرض کو ادا کرنے میں ناکام اور کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف امریکہ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کو اپنا دشمن کہہ کر دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف یہی امریکہ شام میں القاعدہ و طالبان جنگجوؤں کی معاونت کر رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے، مزید کیا شام کے حالات منجی بشریت ظہور امام مہدی (عج) کی نشانیوں کے طور پر لئے جاسکتے ہیں۔؟
علامہ سید محمد سبطین حسینی: دیکھئے سوریا یا شام میں امریکہ اور اس کے حواریوں القاعدہ و طالبان کا اہم مقصد ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا ہے، چونکہ شام کی حکومت کٹر و دوٹوک انداز میں اسرائیل مخالف اور حماس و حزب اللہ کی طرف دار ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ زبانی جمع خرچ معاہدوں و مذاکرت جیسے الفتح و یاسر عرفات کے کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف مخالفت کرکے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی حمایت کرتی رہی ہے۔ اس لئے امریکہ اور اس کے حواری القاعدہ و طالبان اور نام نہاد فری سیرین آرمی دراصل شام میں اسرائیل نواز حکومت کے لئے کوشاں ہیں۔ جہاں تک ان حالات کی منجی بشریت ظہور امام مہدی (عج) کی نشانیوں و مقدمے کے حوالے سے بات ہے تو اس حوالے سے کتب میں اہلبیت (ع) سے منسوب بہت سے روایات ملتی ہیں اور ان حالات و واقعات کو ہم مقدماتی حالات کہہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آخر میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے قارئین کے لئے کوئی پیغام اور اس وساطت سے اگر کوئی شخص یا تنظیم شہداء کے یتیم بچوں کیلئے قائم اس ادارے ’’زینبیہ (س) اکیڈمی‘‘ کی مالی معاونت کرنا چاہے تو رابط کار کا طریقہ اور اکاؤنٹ نمبر دے دیں۔؟

علامہ سید محمد سبطین حسینی: شکریہ ’’اسلام ٹائمز‘‘ اور آپ دوستوں کا کہ جنہوں نے شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت کروانے والے ادارہ ’’زینبیہ (س) اکیڈمی‘‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ شہداء کے یتیم بچوں اور ان کے خانوادوں کی کفالت کی ذمہ داری ہم سب پر فرض ہے، ضرورت صرف فرائض کی بطریق احسن ادائیگی کی ہے۔ ہمارے ادارے سے رابطہ اور عطیات دینے کے لئے طریقہ درجہ ذیل ہے۔ یہاں یہ امر یاد رہے کہ ہمارے ادارے کو عطیات و چندے کے علاوہ سہم امام (ع) بھی دیا جاسکتا ہے۔ جس کے لئے ہمارے پاس رہبر معظم سید علی خامنہ ای، سید علی سیستانی و دیگر مراجع عظام کے اجازت نامے بھی موجودہ ہیں۔
رابطہ ایڈریس: شہداء کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کا ادارہ و ہاسٹل زینبیہ (س) اکیڈمی زیر انتظام القائم (عج) ٹرسٹ، ماڈل ٹاؤن ٹیکسلا، پنجاب۔
شہدا کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے عطیات و چندے کے علاوہ سہم امام (ع) کے لئے اکاؤنٹ نمبر کی تفصیلات، جس میں اندرون ملک و بیرون ملک سے عطیات بھیجے جاسکتے ہیں، یا پھر مزید معلومات کے لئے موبائل نمبر 03472051544 پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ والسلام و شکریہ۔
Act# AC 12003442-4
Branch Code=0587
Act Title: Syed Muhammad Sibtain
Allied Bank Limited (ABL) Faisal Shaheed Road ,Taxila.
خبر کا کوڈ : 247872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
khoda khosh raky on ko jo donya pr deen ko tarjee dety han
Saaalam

Dear Friends
The orphans belonging to Parachinar shias are forced to offer nimaz like Ahle Sunnat,
Sweet home ki care taker nay bachon ko mara, aur kaha k ap hath bandh kar nimaz parho.
Our own institutes must be strengthen and they must take care of our orphans.
Iran, Islamic Republic of
اکیڈمی میں کہاں تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ٹیچرز اور سلیبس وغیرہ کے حوالے سے اگر کچھ تعارف کرا دیں تو مہربانی ہوگی۔
یعنی بچے کونسا سلیبس پڑھ رہے ہیں اور ان کے لئے مناسب ٹیچرز کا اہتمام ہے یا نہیں۔
چونکہ تعلیم و تربیت کا انحصار نصاب اور اساتذہ پر ہے۔
برائے مہربانی ہمیں اساتذہ اور نصاب سے جلد از جلد آگاہ فرمائیں، تاکہ شہداء کے خاندانوں کو ہم آگاہ کرسکیں۔
محمد علی نقوی
Iran, Islamic Republic of
شہداء کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کام کرنا بہت عظیم کام ہے۔ خدا آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ برائے مہربانی آپ نے تعلیم و تربیت کے لئے جو سلیبس مرتب کیا ہے اور جن اساتذہ کو انتخاب کیا ہے اور اکیڈمی کا ٹائم ٹیبل بیان فرما دیں، تاکہ میں اپنے بچے کے حوالے سے رابطہ کروں۔
ایک شہید کی بیوہ
Iran, Islamic Republic of
انہوں نے فرمایا ہے کہ ہماری اکیڈمی کا معیار چوتھی و پانچویں جماعت کے طالبعلم ہیں، یہ تو بہت ہی زبردست بات ہے۔ میں چونکہ ایک بین الاوقامی ادارے میں شعبہ ایجوکیشن ریسرچ سے وابستہ ہوں، اس لئے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ "ایک ایسا بچہ جس کا باپ بھی شہید ہوچکا ہو اور اسے اتنی کم عمری میں دیگر رشتہ داروں سے بھی الگ کر دیا جائے، خصوصاً ماں سے بھی"تو وہ حتمی طور پر تعلیم و تربیت کے حوالے سے ناقص رہ جائے گا۔ کیا ایسے بچوں کے لئے کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ نیز ان کا سلیبس، اساتید اور ماما کا بندوبست بھی دوسرے بچوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ معاشرے کے لئےانتہائی خطرناک اقدام ہے۔
علی رضا حسینی
Iran, Islamic Republic of
چوتھی اور پانچویں کے بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کرنے کے بجائے پارہ چنار میں ہی مولانا عابد حسینی صاحب کے ذریعے ان کی مدد کی جائے۔ عابد حسینی صاحب اس حوالے سے بہت فعال ہیں۔
اتنے چھوٹے بچوں کو ان کی ماوں سے جدا کرنا اور ہاسٹل میں رکھنا تعلیمی و تربیتی لحاظ سے یقیناً مستقبل کے لئے بہت خطرناک ہے۔ براہ کرم قوم کے ان نونہالوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
Iran, Islamic Republic of
علی رضا حسینی صاحب کی بات پر توجہ دیں"ایک ایسا بچہ جس کا باپ بھی شہید ہوچکا ہو اور اسے اتنی کم عمری میں دیگر رشتہ داروں سے بھی الگ کر دیا جائے، خصوصاً ماں سے بھی"تو وہ حتمی طور پر تعلیم و تربیت کے حوالے سے ناقص رہ جائے گا۔
Iran, Islamic Republic of
توجہ توجہ توجہ کریں:اتنے چھوٹے بچوں کو ان کی ماوں سے جدا کرنا اور ہاسٹل میں رکھنا تعلیمی و تربیتی لحاظ سے یقیناً مستقبل کے لئے بہت خطرناک ہے۔
Iran, Islamic Republic of
اتنے چھوٹے بچوں کو ہاسٹل میں رکھنا اور تعلیم کے لئے دوسرے لوگوں کے تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے بہتر ہے کہ مولانا عابد حسینی صاحب کے ذریعے ان کی مدد کی جائے۔چونکہ ایک ایسا بچہ جس کا باپ بھی شہید ہوچکا ہو اور اسے اتنی کم عمری میں دیگر رشتہ داروں سے بھی الگ کر دیا جائے، خصوصاً ماں سے بھی"تو وہ حتمی طور پر انتہائی خطرناک اقدام ہے
منتخب
ہماری پیشکش