0
Wednesday 21 Mar 2018 18:48

پاراچنار، یکطرفہ آبادکاری مہم کے بارے میں طوری قبائل کے تحفظات(1)

پاراچنار، یکطرفہ آبادکاری مہم کے بارے میں طوری قبائل کے تحفظات(1)
تحریر: روح اللہ طوری

حکومت کی جانب سے کرم ایجنسی میں گزشتہ دہائی میں بے گھر ہونے والے افراد کی آبادکاری مہم تو گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ تاہم نقل مکانی کرنے والے افراد میں سے اکثر خود کو اپنے آبائی علاقوں میں غیر محفوظ تصور کرکے دوبارہ وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔ جس کا ازالہ کرنے کے لئے صاحب سرکار نے صرف پاراچنار کی سطح پر بھرپور مہم چلا کر اسے متاثرین کے لئے پرامن ظاہر کرنے کی اپنے طور سے بھرپور کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد دھماکوں کے بعد پاراچنار شہر کے اس مخصوص علاقے کو ریڈ زون قرار دیا، جہاں سے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ نیز اس سے بھی ایک قدم آگے سرکار نے پاراچنار کے ارد گرد خندق کھود کر باڑ لگادی۔ اور پھر ایک رنگ روڈ بھی تعمیر کی۔ تاکہ متاثرین کو یہ باور کرایا جاسکے کہ پاراچنار اب آپکے لئے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ تاہم نقل مکانی کرنے والوں کا مطالبہ ہے، کہ وہ اس وقت تک خود کو محفوظ خیال نہیں کریں گے۔ جب تک 1983 اور اس سے پہلے صدہ سے بے دخل شدہ طوری اقوام بحال نہیں ہوتے، کیونکہ کسی بھی ٹینشن کی صورت میں اہلیان پاراچنار صدہ میں آباد اپنی برادری کے لوگ یعنی طوری قبائل کی خاطر انکے خلاف کوئی انتقامی کاروائی کرنے سے گریزاں ہونگے۔ لیکن مقامی انتظامیہ بضد ہے کہ دیگر قبائل سے ہٹ کر، صرف پاراچنار سے بے دخل شدہ افغانی الاصل (منگل، مقبل اور جاجی وغیرہ) قبائل اور خانوادے پاراچنار تشریف لائیں۔ 

انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کے ساتھ حکومتی مذاکرات:

اس سلسلے میں حکومت کے اعلی عہدیداروں نے مقامی سطح پر قبائلی عمائدین خصوصا انجمن حسینیہ، تحریک حسینی وغیرہ کے مشران سے مذاکرات کے کئی دور کئے ہیں۔ جن کا مبینہ طور پر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے پاراچنار میں موجود تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین اور حاجی عابد حسین سے باری باری انکا موقف معلوم کیا۔ تو انکا دوٹوک انداز میں کہنا تھا کہ انکے سربراہ علامہ سید عابد حسین الحسینی، اور خود وہ ایسی کوئی تجویز قبول کرنے کو تیار نہیں، جس میں طوری بنگش اقوام کی بحالی سے صرف نظر کرکے، ملک دشمن اور افغانی الاصل قبائل کی بات ہو۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی نور محمد کے ساتھ بھی بات ہوئی ہے۔ اور انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا، تو انہوں نے بھی اس حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے ہمیں ہر طرح سے تسلی دی۔ انہوں نے کہا کہ کل ہی کی بات ہے، کہ اس حوالے سے ہم نے بریگیڈئر صاحب کو مکمل طور پر بریف کیا اور اپنے تحفظات و مطالبات سے وضاحت کے ساتھ آگاہ کیا۔ جبکہ آج دوبارہ پاک فوج کے جرنیل صاحب سے ملاقات کے دوران بھی اپنے تحفظات و مطالبات کو بیان کرنے کے بعد اسے تحریرا بھی حوالے کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپکے تحفظات کیا ہیں تو انہوں نے اپنے تحفظات کی ایک طویل داستان بیان کی، جسے رشتہ تحریر میں لانا تو ممکن نہیں، تاہم اسے قارئین کی خدمت میں مختصرا پیش کرتے ہیں۔

طوری قبائل کے تحفظات:
صدر تحریک کا کہنا تھا، بریگیڈئر صاحب اور پی اے کرم نیز مختلف مواقع پر کرم ایجنسی میں دورہ پر آنے والے اعلی فوجی و سول افسران کو ہم نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، وہ یہ کہ آباد کاری مہم یک طرفہ طور پر کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جب تک ہر فریق کو پورا پورا انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ ہم نے بار بار واضح کیا ہے، اور آج بھی واضح کررہے ہیں کہ کرم ایجنسی کو اغیار سے، اندرونی اور بیرونی دشمنوں، خصوصا طالبان اور داعش سے بچانے، حتی کہ سرکاری اداروں کو تحفظ فراہم کرنے میں سب سے زیادہ اور کلیدی کردار طوری بنگش قبائل نے ادا کیا ہے۔ جبکہ دیگر قبائل نے تو شروع ہی سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ دوہری شہریت رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ سرحد پار اپنے ہم نسب قبائل کے توسط سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشیں کی ہیں۔ اسکے باوجود ہماری نسبت آج دیگر اقوام خصوصا طالبان کو پناہ دینے والوں کو خصوصی توجہ اور فوقیت دی جارہی ہے۔ ہم نے آج بھی اپنے معزز مہمان جرنیل کو اپنی اس شکایت سے آگاہ کیا۔ 

طوری بنگش قبائل کی اراضی پر ناجائز قبضہ کا مسئلہ:
مولانا یوسف حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے آج جرنیل صاحب کو یہ بھی گوش گزار کیا کہ یہاں موجود دیگر قبائل کے ساتھ انکا کوئی مذھبی اور فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ انکے ساتھ اراضی، شاملات اور پہاڑوں پر ناجائز قبضہ جات اور اسکی جائز ملکیت پر تنازعات چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے تاریخ، فلسفہ، قرآن مجید یا حدیث کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں، کہ کون حق پر ہے اور کون غلطی پر۔ بلکہ ان کا حل حکومت کے ایوانوں اور ریکارڈ میں موجود ہے۔ سرکاری آفس خانے میں کرم ایجنسی کی تمام اراضی، شاملات اور پہاڑوں کی ریکارڈ موجود ہے۔ جسے دو مرتبہ یعنی 1905 اور 1943ء میں وقت کی حکومتوں نے مرتب کیا ہے۔ چنانچہ حکومت اگر چاہے تو اسی کے مطابق حقدار تک اپنا اپنا حق پہنچا سکتی ہے۔ 
جاری ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 712962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش