0
Tuesday 13 Feb 2018 01:53

سندھ میں 25 جیلیں ہیں، مزید 4 نئی جیل زیر تعمیر ہیں

سندھ میں 25 جیلیں ہیں، مزید 4 نئی جیل زیر تعمیر ہیں
رپورٹ: ایس ایم عابدی

صوبہ سندھ میں اس وقت 25 جیل ہیں، تاہم جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لئے مزید 4 نئی جیل زیر تعمیر ہیں، موجودہ جیلوں میں 5 سینٹرل جیل، 11 ڈسٹرکٹ جیل، 4 ویمن جیل، 4 کم عمر قیدیوں کی جیل اور اوپن جیل شامل ہیں، اوپن جیل بدین میں واقع ہے، جسے 2012ء میں دوبارہ کھولا گیا تھا، تاہم اس وقت مذکورہ جیل میں کوئی بھی قیدی نہیں ہے۔ زیر تعمیر ڈسٹرکٹ جیل ٹھٹھہ میں 250 قیدیوں کی گنجائش ہوگی، میرپور خاص اور ضلع شہید بے نظیر آباد میں 500، 500 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والی 2 ڈسٹرکٹ جیل اور ملیر کراچی میں نئی ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر شامل ہے۔ ہائی پروفائل قیدیوں کو صوبے کی 3 جیلوں میں رکھا گیا ہے، جن میں 373 جہادی اور 108 ٹارگٹ کلرز شامل ہیں، ہائی پروفائل قیدیوں کی بڑی تعداد سینٹرل جیل کراچی میں ہے، جن میں 286 جہادی اور 80 ٹارگٹ کلرز شامل ہیں، ان میں 58 جہادی اور 11 ٹارگٹ کلر سزا یافتہ ہیں۔ سینٹرل جیل حیدر آباد میں 42 جہادی اور 14 ٹارگٹ کلرز جبکہ سینٹرل جیل سکھر میں 45 جہادی اور 14 ٹارگٹ کلرز کو رکھا گیا ہے۔ جیلوں کی سکیورٹی کی سب سے زیادہ ذمہ داری ایف سی کی ہے، جبکہ رینجرز اور پولیس کے اہلکار بھی جیلوں کی سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سینٹرل جیل کراچی میں ایف سی کی 4 پلاٹون پر مشتمل 106 اہلکار، حیدرآباد میں 3 پلاٹون پر مشتمل 124 اہلکار اور سکھر سینٹرل جیل میں ایف سی کے 113 اہلکار تعینات ہیں، مجموعی طور پر صوبہ سندھ کی جیلوں کی سکیورٹی کے لئے ایف سی کے 17 پلاٹون پر مشتمل 529 اہلکار تعینات ہیں، جبکہ پولیس کے 272 اہکار اور رینجرز کے 108 اہلکار جیلوں کی سکیورٹی پر مامور ہیں۔

جیلوں کی سکیورٹی کے لئے رینجرز کی ایک بکتر بند گاڑی اور 4 موبائل وین اور پولیس کی 3 موبائل گاڑیاں بھی زیر استعمال ہیں۔ صوبے کی جیلوں میں اسٹاف کی منظور شدہ تعداد 5262 ہے، جبکہ موجودہ اسٹاف کی تعداد 3963 ہے، 1301 اسامیاں خالی ہیں، جن میں انتظامی افسران، سکیورٹی اسٹاف، میڈیکل اسٹاف اور ٹیچنگ اسٹاف کی اسامیاں شامل ہیں، انتظامی اسامیوں میں خواتین اور مرد اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، پی آر او، لائن آفیسرز اور دیگر اسامیاں شامل ہیں، جبکہ سکیورٹی اسٹاف کی اسامیوں میں اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، لیڈی اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، ہیڈ کانسٹیبل، لیڈی ہیڈ کانسٹیبل، خواتین اور مرد کانسٹیبل شامل ہیں، میڈیکل اسٹاف کی اسامیوں میں خواتین اور مرد میڈیکل آفیسرز شامل ہیں، جبکہ ٹیچنگ اسٹاف میں مرد اور خواتین اساتذہ و لیکچرارز کی آسامیاں شامل ہیں۔ اسٹاف کے علاوہ جیلوں میں قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے کے لئے درکار گاڑیوں کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے، مجموعی طور تمام جیلوں میں قیدیوں کے لئے 118 گاڑیوں کی ضرورت ہے، جبکہ 82 گاڑیاں دستیاب ہیں، اس طرح 36 گاڑیاں کم ہیں۔

سال 2009ء سے اگست 2016ء تک صرف 18 قیدیوں کو پھانسی دی گئی، جبکہ 473 قیدیوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد رکا ہوا ہے، ان میں 446 قیدیوں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے کا سبب ان کی جانب سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں ہیں، جبکہ 8 قیدیوں نے پھانسی کی سزاؤں کے خلاف جی ایچ کیو میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں، جی ایچ کیو نے 2 قیدیوں کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں، پھانسی کے 6 قیدیوں کی اپیلیں نیول ہیڈ کوارٹرز میں زیر التوا ہیں، جبکہ 4 قیدیوں نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کر رکھی ہے۔ اگست 2016ء تک 18 قیدیوں کو پھانسی دی گئی، ان میں سینٹرل جیل کراچی میں 10، حیدرآباد میں 2، سکھر میں 5 اور سینٹرل جیل لاڑکانہ میں ایک قیدی شامل ہے۔ سال 2011ء سے 2015ء تک 5 سال کے دوران صوبے کی مختلف جیلوں سے 2980 قیدیوں کو پے رول اور پروبیشن پر رہا کیا گیا، جن میں 797 قیدیوں کو 2011ء میں آزاد کیا گیا، جبکہ 2012ء میں 627 قیدی، 2013ء میں 459 قیدی، 2014ء میں 484 قیدی اور سال 2015ء میں 613 قیدی پے رول اور پروبیشن پر رہا کئے گئے۔

30 سال میں سندھ کی جیلوں سے 42 قیدی فرار ہوچکے ہیں
گذشتہ 30 سال میں سندھ کی جیلوں سے 42 قیدی فرار ہوچکے ہیں۔ سرکاری سطح پر حاصل کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سندھ کی جیلوں میں ہنگامہ آرائی کے دوران 24 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ قیدیوں کے فرار اور ہنگامہ آرائی کے وقت جیلوں میں پی ایس پی افسران آئی جی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ذرائع کو حاصل دستاویزات کے مطابق 23 مارچ 1986ء کو سکھر جیل سے 34 قیدی فرار ہوئے جبکہ جیکب آباد جیل سے 2 اور حیدرآباد جیل سے ایک قیدی فرار ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ایک مرتبہ پھر 1996ء اور 2007ء میں سکھر جیل سے 6 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء میں سینٹرل جیل حیدرآباد میں ہنگامہ آرائی کے دوران 7 قیدی ہلاک اور 50 قیدی زخمی بھی ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1989ء کے دوران حیدرآباد جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران 13 افراد ہلاک ہوئے۔ 2008ء میں ملیر جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران 4 افراد ہلاک ہوئے۔ مذکورہ مدت کے درمیان جیلوں کا نظم و نسق پی ایس پی (پولیس سروسز پاکستان) کے افسران غلام قادر تھیبو، رضا حسین، یامین خان، افتخار احمد اور سہیل درانی آئی جی جیل کی حیثیت سے سنھبالے ہوئے تھے۔ ایک بار پھر پی ایس پی افسران جیل کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں اور آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کا خط اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ 5 سال کے دوران اس طرح کا کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
خبر کا کوڈ : 704400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش