0
Saturday 21 Oct 2017 21:30

ایام عزا اور نجات دہندہ بشریت

ایام عزا اور نجات دہندہ بشریت
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ایام عزا گذر رہے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف خاموشی ہے کسی کو معلوم نہیں کہ بعد از عاشور کیا ہوا؟ فقط اہل تشیع ہی ہیں جو غم حسین میں آج بھی اسی طرح مصروف ہیں جیسے عاشور کے وقت تھے، اس کا عروج چہلم امام و شہدائے کربلا ہوتا ہے، جسے اب عالمی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محرم الحرام عرب میں جاہلیت کے دور میں بھی تقدس و احترام سے دیکھا جانے والا مہینہ تھا، اسلام نے بھی اس روایت کو برقرار کھا اور دستور عرب کے مطابق اس ماہ میں جنگ و جدل اور لڑائیوں سے دوری اختیار کی۔ 61 ہجری عاشور کے روز میدان کربلا میں خانوادۂ ختم الرسلؐ اور اصحاب محترمؓ کے ساتھ پیش آنے والے عظیم واقعہ کے ذمہ داروں نے جہاں مقدس ہستیوں کو قتل کرکے اپنے لئے جہنم کا سامان کیا، وہاں اس ماہ کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ خیر جو لوگ جگر گوشہ رسولؐ و بتولؑ اور خانوادہ محترم ختم الرسلؐ کو توہین آمیز انداز میں شہید اور اسیر کرسکتے تھے، ان کے سامنے ایک ماہِ مقدس کے احترام کی کیا ارزش و اہمیت ہوسکتی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 61 ہجری کے عاشور کے بعد دنیا دو فرقوں میں منقسم ہوگئی، ابوسفیان کے پوتے، اُمیہ کے لاڈلے یزید (لعین) ابن معاویہ کے اقتدار اور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کا ساتھ دینے والے یزیدی کہلائے جانے لگے اور فرزندِ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؑ ،حضرت ابو طالبؑ کے پوتے حضرت حسین ابن علی ؑ کے ساتھ شہادتوں کو گلے لگانے والے اور آپؑ کی آواز پر لبیک کہنے والے حسینی کہلائے۔

یزیدیوں نے 10 محرم الحرام کو اپنے وقت کے مقدس و محترم ترین افراد کو شہید کرکے ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سر قلم کئے، ان کے خانوادۂ محترم کے مال و اسباب کو لوٹ کر خیام کو آگ لگائی اور عصمت و رسالت کی آغوش میں پلنے والی بیبیوں کو برہنہ سَر اسیر کرکے بازاروں اور درباروں میں پھرایا، ان کا تمسخر اڑایا، انہیں اذیت دی، ان کی توہین کی اور ان کی شہادتوں، اسارتوں اور بظاہر مارے جانے کو شکست سے تعبیر کرتے ہوئے جشن فتح منایا جبکہ یزیدی ظلم کے شکار حسینیوں کے بچ جانے والے خواتین و حضرات نے اپنی مظلومیت کا پرچار کرکے، ظلم کیخلاف آواز اُٹھا کر بازاروں و درباروں اور کوفہ و شام کی راہوں میں مردہ ضمیروں پر دستک دی۔ عملاً جو صورتحال سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ دخترانِ علی ؑ و فرزند حسینؑ ابن علی ؑ سید سجاد ؑ کے خطبات مجالس و عزاداری کا ماحول بنانے میں ممدو معاون ثابت ہوئے۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ظلم کیخلاف احتجاج اور آواز بلند کرنیکی روش خانوادۂ نبیؐ نے ہی دکھائی، یہ مجالس و خطبات یزیدیوں کے ظلم آشکار کرنے اور امام حسینؑ کا ساتھ نہ دینے والے کوفیوں و شامیوں میں ندامت و شرمندگی اور ان کے مردہ ضمیروں کو بیدار کرنے کا سبب بنے، تب سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ مشکلات و مصائب میں عزا برپا کرنا سنتِ سید سجادؑ و سنتِ بی بی زینبؑ ہے۔

آج بھی پوری دنیا میں مجالس، محافل، جلوس عزاداری اور دیگر ذرائع سے شہدائے کربلا کی مظلومیت، امام حسینؑ کی قربانی کا فلسفہ اور مقاصد نیز ہماری زندگیوں پر اس کے اثرات و اہمیت کے عنوان سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج بھی حسین ابن علی ؑ کے ہدف، مقصد اور قربانی کے راستے کو اپنانے والے حسینیوں کے مقابل 61 ہجری کے یزید، شمر، خولی، عمر سعد اور ابن زیاد (ملعونین) کے پیروکار ان مجالس، جلوس ہائے عزا، محافل اور جلسوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یزیدی فرقہ کے پیروکار اپنے جد کی طرح اپنی تمام تر روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں، فتویٰ سازی سے لے کر قتل و غارت تک اور بم دھماکوں سے لے کر ذبح کئے جانے تک تمام یزیدی روایات پر عمل درآمد جاری ہے۔ اُمیہ کے دور کی طرح آج بھی انہیں کئی حکومتوں اور اداروں کی مکمل مدد حاصل ہے۔ یہ آگ لگانے کیلئے سعودی و قطری تیل کے درہم و دینار اور ریال بہائے جا رہے ہیں۔ افغانستان و پاکستان کو ایک بار پھر مشق ستم بنایا جا رہا ہے اور حسینیوں کو اپنے مذہبی عقائد و عبادات سرانجام دینے میں بے حد مشکلات اور مصائب سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ کہ یہ یزیدی ٹولہ اب تکفیری گروہ کے طور پہ سامنے آیا ہے، جسے اپنے علاوہ سب ہی کافر و زندیق اور بدعتیں ایجاد کرنے والے دکھائی دیتے ہیں، چاہے ان کا تعلق اہل تشیع سے ہو یا اہل سنت سے، حتٰی اگر وہ وہابی و دیوبندی بھی ہوں اور ان کی سوچ و فکر اور طرز عمل سے میل نہ کھاتے ہوں تو وہ بھی واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ عراق، شام، سعودیہ، کویت، لبنان، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک اور ریاستیں ایسی ہی سوچ کے حاملان کے پیدا کردہ مسائل کا شکار ہیں۔

عراق اور شام میں بدترین شکست اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے سقوط کے بعد ان کی اگلی منزل افغانستان کے بہت سے ایریاز اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ان کیلئے بہت آئیڈیل ہیں اور افغانستان کے اصل طالبان کے مقابلے میں انہیں امریکہ و اتحادیوں کی مدد اور حمایت بھی حاصل ہے، اس کا اظہار افغانستان کے سابق صدر جو امریکی انگلیوں پر ناچتے رہے ہیں کرچکے ہیں۔ لہذا مستقبل میں ایسے تکفیریوں کا مقابلہ ہماری فورسز خصوصاً افواج پاکستان کو کرنا ہوگا، یہ خطرہ اپنی جگہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کی طرف ہمارے متزلزل حکمرانوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، یہ اپنے مسائل میں اس قدر الجھے ہیں کہ انہیں اپنی کرسی بچانے کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا۔ افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستانی شہروں میں یکایک دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آگئی ہے، افغانستان میں ایک طرف تو فورسز کے بیسز پر حملے ہو رہے ہیں، جن میں افواج اور سکیورٹی اداروں کا نقصان ہوتا ہے اور ان حملوں کو اکثر افغان طالبان قبول بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف اہل تشیع کے اجتماعات، مساجد، نماز جمعہ اور جلوسوں میں بہت بڑے حملے جاری ہیں، جنہیں طالبان قبول نہیں کرتے، بظاہر یہ حملے داعش کے لوگ کر رہے ہیں اور اپنی شکست کا بدلہ یہاں لے رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بالخصوص ہزارہ مومنین اور اس روٹ پر کارروائیاں جہاں سے ایران جانے والے زائرین کے کانوائے گذرتے ہیں، کو مختلف قسم کے کارروائیوں کے ذریعے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اربعین امام حسین (ع) کیلئے براستہ ایران جانے والے ہزاروں زائرین کو خوفزدہ کیا جائے اور انہیں روکا جائے، مگر یہ کیسے ممکن ہے، ہم کسی بھی صورت اس پہ کمپرومائز نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایسی کسی پابندی کو قبول کرتے ہیں کہ اس برس صرف اتنی بسیں جائیں گی، یہ کسی بھی طرح درست نہیں، غریب لوگ سال بھر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اربعین کے موقعہ پر زیارت امام حسین و شہدائے کربلا کیلئے جائیں گے، اگر انہیں روکا جاتا ہے، انہیں ذلیل کیا جاتا ہے، ان پر ناروا پابندیاں لگائی جاتی ہیں، انہیں خواہ مخواہ انتظار کروایا جاتا ہے اور ان سے ناجائز طور پہ پیسے بٹورے جاتے ہیں تو یہ ظلم ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، یہ ناانصافی اور تعصب ہے، یہ پاکستانیوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے، جس میں ایک طرف تو آپ بستر اٹھائے شہر شہر گھومنے والی جماعت کو ٹرینیں چلا کے دیتے ہو، ان کیلئے روٹ بنائے جاتے ہیں، انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں اور ان کے اجتماعات میں دعائیں کروانے پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری طرف رکاوٹیں، بم دھماکے، کانوائے کی پابندیاں، مال بٹورنے کے بیسیوں طریقے اور منافرانہ، متعصبانہ رویئے۔۔ آخر ایسا دوہرا معیار ارض پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے مترادف نہیں؟

ہم تو حسینیت کی ایک عالمی تحریک کا حصہ ہیں، جو ایک عادلانہ، منصفانہ انقلاب لانے کی تیاریوں کیلئے کوشاں ہیں، ہم تو رسول اعظم ؐ کی پیشن گوئی اور فرمان کی تفسیر بنے ہوئے ہیں، جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اللہ تعالٰی امام حسین ؑ کی نسل سے ایک مرد کو بھیجے گا، جو ظالموں سے اقتدار و طاقت چھین لے گا اور مظلوموں کو کرسی اقتدار سونپے گا۔ ہم اس دن کی تیاری کر رہے ہیں، یہ اربعین اسی انقلاب کا زینہ ہے، بم دھماکے، خوف و خطرات اور پابندیاں یہ راستہ نہیں روک سکتیں، ہاں اس میں دیر ہوسکتی ہے، اس میں انتظار کی شدت بڑھ سکتی ہے، اس میں مایوسی کے بادل چھا جانے کا خدشہ موجود ہے، اس میں ممکن ہے کہ ہماری کئی نسلوں کو انتظار کرنا پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ظلم کے خاتمت کا فیصلہ بارگاہ ایزدی میں آج ہی ہو جائے اور باری تعالٰی امام مہدی کو اذنن ظہور دیں اور ہماری آنکھیں اس نرجس کے پھول کی زیارت کریں، جس کیلئے ہم تڑپ رہے ہیں، جس کیلئے زمین و آسمان کی مخلوقات بیقراری کا شکار ہیں، شائد آج ہی قرار آ جائے، شائد آج ہی ظہور ہو جائے، شائد آج ہی مظلوموں کے ہاتھوں میں ظالموں کے گریبان ہوں۔۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 678283
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش