1
0
Thursday 14 Jun 2012 13:01

ولایت فقیہ اور امام خمینی رہ

ولایت فقیہ اور امام خمینی رہ
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
چیئرمین نورالہدیٰ ٹرسٹ، پرنسپل جامعۃ الرضا، بہارہ کہو، اسلام آباد
 
فقہ لغت میں گہرے فہم و ادراک کے معنی میں ہے، قرآن کریم، احادیث نبوی اور اقوال آئمہ ہدیٰ ع میں متعدد بار ”تفقہ فی الدین“ کا حکم دیا گیا ہے۔ ان موارد سے مجموعی طور پر یہ نیتجہ حاصل ہوتا ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اسلام کو تمام جہات سے خوب اچھی طرح سمجھیں۔ اس کے مسائل و احکام کو گہری اور عمیق نظروں سے دیکھیں اور کمال بصیرت کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں، البتہ یہ ”تفقہ فی الدین“ جس کی اسلام تاکید کرتا ہے اسلام کے تمام پہلوﺅں پر حاوی ہے خواہ وہ عقائد ہوں، اخلاقیات ہوں یا تربیت کے اسلامی اصول ہوں، اسلامی عبادات، یا قوانین اسلامی ہوں یا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے متعلق خاص آداب ہوں۔ لیکن فقہ کی وہ اصطلاح جو دوسری صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوئی، وہ ”اسلامی قوانین و احکام کا ان کے ماخذ اور مصادر سے استنباط “ سے عبارت ہے۔
 
دوسرے الفاظ میں دقیق اور عمیق انداز سے اسلامی ماخذ سے اس کے احکام و قوانین کے سمجھنے کو فقہ کہا جاتا ہے۔ ولایت کا لفظی مطلب کسی امر کی سرپرستی کرنا، اس کی ذمہ داری قبول کرنا اور قیادت و راہنمائی کرنا ہے۔ ہمارے زیربحث ولایت کا مطلب اسلامی امت کی قیادت و راہنمائی اور اسلامی معاشرے پر حکومت و سرپرستی ہے۔ ولایت بمعنی حکومت و سرپرستی بالذات ذات باری تعالٰی کا حق ہے، اس کے بعد رسول اللہ ص کو یہ حق اللہ تعالٰی نے عطا کیا ہے، ان کے بعد آئمہ ہدیٰ ع اس کی کامل اہلیت رکھتے ہیں۔ نبی اکرم ص کے بعد امت کی رہبری اور قیادت اور حکومت کے اختیارات ان کے سپرد ہیں۔ ان کے بعد وہ امور جو فقہ اسلامی کے دائرے میں آتے ہیں ان کی سرپرستی و ذمہ داری اور امت کی قیادت و راہنمائی کا نام ولایت فقیہ ہے۔ اسے حاکم شرع بھی کہا جاتا ہے۔
 
ایک معاصر محقق نے اس عنوان پر شیعہ و اہل سنت دونوں ذرائع سے احادیث و روایات کو پیش کیا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ امت کے درمیان متفقہ علیہ مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا تصور اس کی تصدیق کے لئے کافی ہے، یعنی اگر انسان ولایت فقیہ کا مطلب صحیح طور پر سمجھ لے تو وہ خود بخود اس کے ثبوت کا قائل ہو جائے گا اور اسے ثابت کرنے کے لئے مزید ادلہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ 

آج کے دور میں اس عنوان پر گفتگو کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے، جس کی مختلف جہات اور پہلو ہیں۔ اس مقالے میں صرف امام خمینی رہ قدس سرہ کی ذات کے حوالے سے اس موضوع پر چند باتیں عرض کی جائیں گی۔ شاید بعض افراد کے ذہنوں میں یہ بات ہو کہ ”ولایت فقیہ“ کے نظریے کو سب سے پہلے امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی نے پیش کیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، خود امام خمینی رہ فرماتے ہیں:
” موضوع ولایت فقیہ چیز تازہ ای نسبت کہ ماآوردہ باشیم بلکہ این مسالہ از اول مورد بحث بودہ است“ (حکومت اسلامی/149) 
یعنی موضوع ولایت فقیہ کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جو ہم لائے ہیں بلکہ یہ مسئلہ ابتداء سے ہی مورد بحث تھا۔

اس نظرئیے کے دلائل خود قرآن مجید اور احادیث معصومین ع میں موجود ہیں۔ علماء نے عقلی ونقلی دونوں قسم کے ادلہ سے اِسے ثابت کیا ہے۔ فقہا کے درمیان فقیہ کی ولایت کا مسئلہ مسلم وضروری مسائل میں سے ہے۔ جو انسان بھی فقہ سے آگاہ ہے اور اس کے مختلف ابواب کا مطالعہ رکھتا ہے، وہ فقیہ کی ولایت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اِس موضوع کے بارے میں بزرگ فقہاء نے اپنی کتب میں مختلف مقامات پر بحث کی ہے۔ 

شیخ محمد حسن (متوفای 1266 ہجری) کتاب ”جواہر الکلام“ کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کو شیعہ فقہ کا انسائیکلو پیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ فقہ کی مفصل ترین کتاب ہے۔ کوئی بھی مجتہد اپنے آپ کو جواہر سے بے نیاز نہیں سمجھتا۔ یہ کتاب کئی بار چھپ چکی ہے، اس کی پچاس جلدیں ہیں اور تقریباً ۲۰ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ شہید مطہری اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی ہر سطر علمی مطالب سے پُر ہے، ایک صفحہ کے مطالعے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ اس کتاب کی تالیف پر کتنی توانائی اور محنت صرف ہوئی ہوگی۔ مسلسل 30 سال کی کاوشیں، لگن خلوص اور سچے جذبے کی بدولت یہ عظیم فقہی شاہکار وجود میں آیا۔“ (1) 

موصوف اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
(مذہب کے ستونوں یعنی بزرگ فقہاء نے فقیہ کی ولایت کا حکم دیا ہے) (2)
”اصحاب کے ابواب فقہ میں عمل اور فتویٰ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فقیہ کی ولایت عموماً ہے، بلکہ ولایت کا عمومی ہونا فقہاء کے نزدیک مسلمات یا ضروریات میں سے ہے۔“ (3)  
صاحب جواہر ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
جو ولایت فقیہ کے مسئلے میں شک کرتا ہے اس نے فقہ کا ذائقہ ہی نہیں چکھا اور آئمہ معصومین ع کے کلمات اور اقوال کی رمز نہیں سمجھتا ہے۔ اگر فقیہ کی ولایت عامہ نہ ہو تو شیعوں کے بیشتر امور معطل ہو جائیں۔ (۴) 

آیة اللہ حاج آقا رضا ہمدانی قدس سرہ فرماتے ہیں:
مجتہدین وفقہا کے اقوال میں تحقیق و جستجو سے واضح ہوتا ہے کہ فقہ کے ہر باب میں فقیہہ کی ولایت امور مسلمہ میں سے ہے۔ (5)
مرجع بزرگ آیت اللہ العظمٰی نائینی قدس سرہ نے اپنی کتاب ”تنبیہ الامہ وتنزیہ الملہ“ میں فرمایا ہے: مذکورہ فرائض (یعنی نظام اسلام کی حفاظت، مرکز اسلام کی حفاظت و دفاع اور ممالک اسلامیہ کا انتظام) میں بطور نائب عام فقہا کی نیابت مذہب شیعہ کے قطعی امور میں سے ہے۔(6)

جن بزرگ فقہا نے ولایت فقیہہ پر امام خمینی رہ سے پہلے بحث کی ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔
 
1) آیة اللہ العظمٰی محقق نراقی طاب ثراہ نے اپنی کتاب ”عوائد الایام“ میں اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔
 
2) شیخ اعظم مرتضٰی انصاری نے کتاب البیع میں مال یتیم کی بیع کے سلسلے میں ولایت فقیہ کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔
 
3) آیة اللہ العظمٰی محقق نائینی قدس اللہ نفسہ الزکیہ نے ”تنبیہ الامہ“ یا حکومت در اسلام میں ولایت فقیہہ پر روشنی ڈالی ہے۔
 
4)  آیة اللہ العظمٰی بروجردی اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب ”البدر الزھر“ میں اختصار سے ولایت فقیہہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔
 
حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی کتاب ”البیع“ کی دوسری جلد میں جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے تحریر فرمائی، ”ولایت فقیہ“ اور ”حکومت اسلامی“ کی تشکیل کی ضرورت پر بہت ساری عقلی ونقلی ادلہ بیان کی ہیں۔ آپ نے پہلی مرتبہ اس موضوع کو کامل ترین اور موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، آپ نے اس موضوع کے تمام پہلوﺅں پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔ آپ نے اس موضوع کو جس روشن، واضح اور مدلل طریقے سے پیش کیا ہے، اب کسی کے لئے اس میں شک و تردید کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
 
مذکورہ کتاب کے کچھ مطالب آپ کی کتاب حکومت اسلامی میں موجود ہیں۔ حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ کی کتاب آپ کے بارہ دروس پر مشتمل ہے جو آپ نے نجف اشرف میں دیئے تھے۔ اس نظریئے کے متعلق امام قدس سرہ کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اس نظریئے کے نفاذ کے لیے علمی جدوجہد فرمائی، صرف مسئلے کو بیان کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی میدان میں وارد ہو کر ولایت فقیہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ 

”حکومت اسلامی“ کتاب میں مختلف ادلہ کو بیان کرتے ہوئے جب اس روایت ”الفقہا اُمنا الرسول، مالم یدخلوا فی الدنیا" ”فقہاء انبیاء کے امین ہیں“ (7)
کو بیان کیا تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا امین کے معنی یہ ہیں کہ فقہا تمام اسلامی قوانین کا امانت کے ساتھ اجراء کریں نہ یہ کہ صرف مسئلے کو بیان کرتے رہیںو کیا امام رہ صرف مسئلہ گو تھے اور صرف حکم بیان کر دیا کرتے تھے؟
 
کیا انبیاء ع صرف مسئلے بتاتے تھے؟ اس لئے فقہاء بھی مسئلہ بتانے میں ان کے امین رہیں؟ قوانین واحکام کے بیان کے ساتھ انبیاء کا اہم ترین فریضہ اجرائے احکام اور حکومت تھا۔ امام رضا ع کی روایت کا ذکر کر چکا ہوں کہ حضرت بطور کلی بیان فرما رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے امام قیم امین کا ہونا ضروری ہے اور اس روایت میں ارشاد ہے کہ فقہاء انبیاء کے امین ہیں۔ اس صغری وکبری کا نیتجہ یہ ہے کہ فقہاء کا رئیس ملت ہونا اس لیے ضروری ہے، تاکہ اسلام کے احکام مٹنے نہ پائیں۔
 
عالم اسلام میں چونکہ فقہاء کی حکومت نہیں ہے، اس لئے اسلام ناپید ہو گیا ہے، اس کے احکام معطل ہوگئے، اسلامی ممالک میں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہیں، حدود جاری نہیں کئے جاتے، نظم اسلام برباد ہو رہا ہے، ہرج و مرج عام ہے، کیا ان باتوں سے اسلام پرانا نہیں ہو گیا؟ کیا اسلام یہی ہے کہ صرف کتابوں میں لکھ دیا جائے، مثلاً کافی (8) لکھ کر ایک سائیڈ پر رکھ دی جائے۔ اگر عملی طور پر احکام کا اجرا نہ ہو، حدود جاری نہ ہوں، ستم گر اور ظالم افراد اپنے کیفر کردار تک نہ پہنچیں اور صرف قرآن کو چوم کر رکھ دیں اور شب جمعہ سورہ یسٰین کی تلاوت کر لیں تو بس یہ کافی ہے۔؟ کیا اس سے احکام اسلام محفوظ ہوگئے۔؟
 
چونکہ ہم میں سے بہت سوں نے کبھی یہ فکر ہی نہیں کی کہ ممالک اسلامی امت، حکومت اسلامی کے زیرسایہ منظم اور پروان چڑھے، اس کا نیتجہ یہی ہوا کہ نہ صرف اسلامی ممالک میں نظم برقرار نہیں ہے اور اسلامی قوانین کی جگہ ظالمانہ قوانین رائج ہیں، بلکہ اسلام خود اہل علم کے ذہنوں میں کہنہ ہو گیا۔ کیا فقہاء پر یہ لازم نہیں ہے کہ احکام اسلام کو معطل نہ ہونے دیں، فساد کرنے والوں کو بغیر سزا کے نہ چھوڑیں۔ حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں گڑ بڑ نہ ہونے دیں۔ بدیہی سی بات ہے کہ ان چیزوں کے لئے امین کی ضرورت ہے اور فقہا کا فریضہ امانت داری ہے۔ (9) 

امام رہ نے ایک اور مقام پر حکومت اسلامی کے قیام کو واجب کفائی اور جب وہ کسی فرد میں منحصر ہو جائے تو فریضہ واجب عینی کہا ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا؛ کہ کس جاندار انداز میں مسئلے کی اہمیت کو امام رہ نے واضح کیا ہے اور اسی شدت کے ساتھ آپ نے اس کے عملی نفاذ کے لئے جہدوجہد کی ہے۔ بالاخر حکومت اسلامی کے قیام کا سہرا امام خمینی رہ کے سر سجا، جس حکومت کی امیرالمومنین ع کی شہادت کے بعد سے آرزو تھی، چودہ صدیاں گزرنے کے بعد یہ عظیم کارنامہ امام کے ہاتھوں انجام پا گیا۔ ہمارے لاکھوں سلام ہوں ایسے مرد مجاہد پر جسے اللہ تعالٰی نے اپنے زمانے کے فقہاء پر فضلیت بخشی۔ ولایت فقیہہ کے عنوان سے امام رضوان اللہ علیہ کی بعض آراء کچھ فقہاء کی آراء سے مختلف ہیں۔
 
امام رضوان اللہ علیہ جامع شرائط فقیہہ کو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں از طرف معصومین ع منصوب سمجھتے ہیں، یعنی فقیہہ کی ولایت پر دلیل وہ شرعی ادلہ ہیں جو فقیہہ کو احکام اسلامی کے نفاذ اور امت اسلامی کی رہبری کے لئے نصب کرتی ہیں، البتہ یہ نصب عام ہے۔ جبکہ کچھ دیگر فقہاء دلیل عقلی سے اس کو ثابت کرتے ہیں، ان کے نزدیک دلیل نقلی نہیں ہے۔ ولی فقیہ کے اختیارات اور دائرہ کار کے حوالے سے امام خمینی رہ کا نظریہ ملاحظہ ہو؛
 
اگر کوئی شخص جس میں قانون دانی (اجتہاد) اور عدالت کی صفتیں پائی جائیں اور وہ حکومت تشکیل دے، تو معاشرے کے امور کو چلانے کے لئے جو ولایت رسول ص کے پاس تھی اُس ولایت کا یہ شخص بھی حامل ہوگا اور تمام لوگوں پر اس کے اطاعت واجب ولازم ہوگی۔ حکومت چلانے، قاضی اور گورنروں کو معین کرنے، فوج کی تیاری، مالیات وصول کرنے اور اُسے مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرنے کی ولایت اور اختیارات جو حضور اکرم ص اور آئمہ معصومین ع کو تھے، وہی اختیارات خدا نے موجودہ حکومت کو دیئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ کوئی شخص معین نہیں ہے میری مراد عالم عادل ہے۔
 
رسول خدا ص اور آئمہ ع جس ولایت کے مالک تھے، غیبت کے بعد فقیہ عادل اس ولایت کا مالک ہے۔ اس جملہ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جو مقام آئمہ معصومین ع کا ہے، وہی مقام فقیہہ عادل کا ہے، کیونکہ مقام ومنزلت سے بحث نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ ذمہ داری مسئولیت اور عہدہ سے بحث ہے۔ ولایت یعنی تمام دُنیا پر حکومت اور شرع مقدس کے قوانین کا جاری کرنا، ایک سنگین اور اہم ترین فریضہ ہے۔ نہ یہ کہ عہدہ پانے والا کسی غیر معمولی مقام و منزلت کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہ عظیم عہدہ ہے، ولایت فقیہ امور اعتباری وعقلائی میں سے ہے۔“ (10) 

اس کے برعکس بعض فقہا ولایت فقیہہ کے دائرہ اختیار کو امور حسبیہ میں محدود کرتے ہیں۔ امور حسبیہ سے مراد معاشرے کے ایسے کام ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ شارع مقدس نے ان کی انجام دہی چاہی ہے اور ان کے معطل ہونے اور انجام نہ پانے پر راضی نہیں ہے۔ جیسے بغیر سرپرست بچے کے مال کی حفاظت، موقوفات کی حفاظت، مجہول المالک کے مال کو صرف کرنا وغیرہ ہیں۔ ان سب امور کی سرپرستی فقیہہ جامع الشرائط کے ذمہ ہے۔ بچے کے اموال کا نگران، موقوفات پر سرپرست مقرر کرنا اور مال مجہول المالک کو خرچ کرنے کے لئے فقیہہ کی اجازت ضروری اور لازم ہے۔
 
اسی طرح اسلامی مراکز اور مسلمانوں کا دفاع، حدود کا اجراء، قضاوت، نظام کی حفاظت، جوانوں کو اخلاقی انحرافات سے بچانے اور اسی طرح دیگر امور بھی جو امت کے مصالح عامہ میں شمار ہوتے ہیں امور حسبیہ میں شامل ہیں۔ فقہاء ان امور میں ولایت رکھتے ہیں اور ان امور میں بلاواسطہ یا بالواسطہ دخیل ہیں۔ (11) 

فقیہہ کے دائرہ کار کے متعلق آیة اللہ جوادی عاملی فرماتے ہیں: جہاں تک فقہ کا دائرہ کار ہے وہاں وہاں تک فقیہ کا دائرہ کار بھی ہونا چاہیے۔ اب اگر ہمیں ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو سمجھنا ہے تو اسے فقہ کے دائرہ کار اور نفوذ کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا، جس حد تک فقہ میں وسعت پائی جاتی ہے، اسی حد تک فقیہ کی ذمہ داریاں ہیں۔

 آخر میں ولایت فقیہ کے ضمن میں تین نکات کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
بعض احباب کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب ولی فقیہہ سب کے لئے ہے، اس کی اطاعت بھی ہم سب پر واجب ہے تو پھر ان کے انتخاب میں ایران سے باہر پاکستان یا دیگر ممالک کے علماء کو شریک کیوں نہیں کیا جاتا۔؟
اس کا جواب تفصیلی ہے، لیکن یہاں پروگرام کی نوعیت اور تقاضے کے پیش نظر اس کا جواب مختصر طور پر دیا جاتا ہے کہ ”ولی فقیہہ“ کا انتخاب نہیں ہوتا، یہ ایسا عہدہ ہے جس پر شخص نصب کیا جاتا ہے اور فقہاء عمومی طور پر اس کے لئے صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ اب جس کے لئے وسائل اور طاقت مہیا ہوگی اور وہ فقیہ عادل حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا، وہی اس منصب پر فائز ہو گیا۔ دیگر فقہاء کی جانب سے اس کا انتخاب معنی نہیں رکھتا، وہ آئمہ کی طرف سے منصوب ہے۔ مجلس خبرگان کا کردار تشخیص فقیہ عادل ہے، انتخاب نہیں ہے۔
 
بعض افراد اس نکتے کو اٹھاتے ہیں کہ ولی فقیہ کے لئے مدت کا تعین ہونا چاہیے۔ ایک شخص کے تاحیات رہنے سے قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ عام عہدوں اور منصبوں میں یہ بات صحیح ہے، لیکن الٰہی عہدہ کے لئے یہ منطق کار فرما نہیں ہے، کیونکہ اس کے لئے بالخصوص ولایت فقیہ کے منصب کے لئے آئمہ ہدیٰ ع نے کچھ معیار اور شرائط مقرر کی ہیں، وہ شرائط مجتہد ہونا، عادل ہونا، دنیا پر حریص نہ ہونا، مدیر ومدبر ہونا، معاشرتی امور میں فہم وفراست ہونا، بابصیرت ہونا، وغیرہ ہیں۔
 
اب جب تک یہ شرائط اور اہلبیت موجود ہے وہ اُس عہدہ پر برقرار رہ سکتا ہے، لیکن اگر وہ ان معیارات اور شرائط میں سے کسی ایک سے فاقد ہو جاتا ہے تو وہ خود بخود معزول ہو جاتا ہے۔ مثلاً احکام اسلامی کی خلاف ورزی یا حریص دنیا، یا دنیا کو دین پر ترجیح وغیرہ تو وہ خود بخود معزول ہو جائے گا۔ کیونکہ اب وہ امین نہیں رہا۔ یہ تو خود ولی فقیہ کے لئے ہے اور اگر اس کا نمائندہ امین نہ رہے یا دنیا پر حریص ہو جائے تو وہ بھی خود بخود معزول ہو جائے گا۔ یا حاکم شرع اُسے معزول کر دے۔
 
آخری نکتہ یہ ہے کہ ولی فقیہ کی حکومت مطلقہ نہیں ہے بلکہ مشروط ہے۔ مشروط سے مراد یہ ہے کہ حکومت کرنے والے افراد قرآن وسنت کی شرائط کے پابند ہوں گے اور قوانین اسلام کی پابندی ان پر لازم ہوگی۔ ولی فقیہ کے احکام قرآن وسنت اور دیگر اسلامی مصادر کی روشنی میں ہوں گے۔ ان کی ذاتی اور شخصی رائے ہرگز شامل نہیں ہو گی۔ ولی فقیہ کا حکم خود ان پر بھی لازم الاتباع ہوگا، اس حکم پر انہیں بھی اطاعت کرنا ہوگی۔ اس لحاظ سے ولی فقیہ کی حکومت درحقیقت لوگوں پر الٰہی قوانین کی حکومت ہے، اسلامی قانون کی حکمرانی ہے، جس کا انحصار اللہ تعالٰی پر ہے۔
 
پس ولی فقیہہ کی حکومت وحی کی حکومت ہے۔ ذاتی حکومت نہیں ہے کہ وہ تمام قباحتیں جو دیگر ذاتی حکومتوں میں پیش آتی ہیں۔ یہاں بھی آئیں، یہاں اللہ کی حکمرانی ہے اور بس آخر میں ان مطالب کی تائید کے لیے امام راحل کی کتاب ”حکومت اسلامی“ سے اقتباس پیش کرتا ہوں، چونکہ اسلامی حکومت قانون کی حکومت ہے۔ اس لیے قانون دان بلکہ دین شناس فقہاء ہی کو اس کا سربراہ ہونا چاہیے۔ فقہا ہی کو ملک کے انتظام اور اجراء کے امور کا نگران ہونا چاہیے۔ یہی حضرات احکام الٰہی کے اجراء، اخذ مالیات، سرحدوں کی حفاظت اور حدود وتعزیرات کے نفاذ کے امین ہیں۔ انہیں چاہیے قانون اسلام کو معطل یا اجراء میں کمی و زیادتی نہ ہونے دیں۔ اگر فقیہ زانی کو حد لگانا چاہے تو شریعت کے معین کردہ طریقہ پر لوگوں کے درمیان سو تازیانے لگائے، وہ ایک تازیانے کی کمی یا زیادتی کا حق نہیں رکھتا۔
 
اسی طرح مالیات کے وصول کرنے میں اسلامی قاعدے پر عمل کرے، ایک پائی زیادہ لینے کا حق نہیں رکھتا، اُسے چاہیے کہ بیت المال میں ہرج و مرج نہ ہونے دے۔ اگر نعوذ باللہ فقیہ خلافِ اسلامی امور کا مرتکب ہو جائے۔ مثلاً فاسق ہو جائے تو خود بخود حکومت سے معزول ہو جائے گا۔ کیونکہ اب وہ امین نہیں رہا ہے۔(12)
 
تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
امام خمینی رہ کی نظر میں ولایت فقیہ اسلام اور اسلامی مراکز کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ قوانین الٰہی کا اجراء نظام ولایت فقیہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کا حقیقی اور معنوی ارتقاء حتٰی کہ مادی ترقی اسی نظام کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔ ظلم واستبداد کا خاتمہ اسی نظام کے تحت ہو سکتا ہے۔

حوالہ جات 
1 آشنائی باعلوم اسلامی 
2 الجواہر ج۲۱، ص۳۹۷ 
3 ایضاً، ج۲۱،ص۱۷۸ 
4 ایضاً، ج۲۱،ص۳۹۶ 
5 مصباح الفقیہ ص۱۶۱ 
6 تنبیہ الامہ وتنزیہ الملة ص۴۶ 
7 حکومت اسلامی ، حصہ۲، ص۲/۳ 
8 ولایت فقیہ/ جامعہ الاطہر/ ص۲۳ 
9 اصول کافی/ جلد اول/ص۴۶ 
10 حدیث کی مشہور کتاب ہے۔ 
11 امام کتاب البیع /ص۴۱۷ ۱۲ حکومت اسلامی ص۵۷
خبر کا کوڈ : 170946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

India
ولایت فقیہ کے موضوع پر ایک گراں بہا علمی اور تحقیقی مضمون ہے۔ جو موصوف کے علمی تبحر پر دال ہونے کے ساتھ ساتھ ولایت فقیہ کی اہمیت اور اختیار سے ناآشنا افراد کے لئے ایک حجت سے کم نہیں ہے۔ خداوند کریم صاحب مضمون کو اس کی بے مثال کاوش کا بہترین اجر عطا کرے۔
فدا حسین بالہامہ سرینگر کشمیر
ہماری پیشکش