0
Sunday 11 Feb 2018 16:35
سی پیک کے مغربی روٹ کو ابتک مرکزی حیثیت نہیں دی گئی

حاصل بزنجو کی پارٹی نے تحریک عدم اعتماد میں غیر جانبدار رہ کر مخالفین کی مدد کی، نسیمہ حفیظ پانیزئی

اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان پشتون وطن میں لگی آگ پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کریں
حاصل بزنجو کی پارٹی نے تحریک عدم اعتماد میں غیر جانبدار رہ کر مخالفین کی مدد کی، نسیمہ حفیظ پانیزئی
نسیمہ حفیظ پانیزئی پشتونخوامیپ کی رہنماء و قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد انکا انتخاب خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر عمل میں لایا گیا۔ وہ قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کی رکن ہیں۔ کمیٹی اجلاسوں کے علاوہ ایوان کے فلور پر بھی صوبے سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کرتی آئی ہیں۔ بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی تعمیر اور بلوچستان کے دیگر مسائل کے حوالے سے اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی جلد از جلد تکمیل کے حوالے سے چند دنوں پہلے کوئٹہ میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں کیا فیصلے کئے گئے۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کی تعمیر، پشین، برشور، توبہ خانوزئی، سپیرہ، راغہ سے لیکر لورلائی تک شاہراہوں کی فیڈرلائزیشن، این 50 خانوزئی شاہراہ پر ٹراما سینٹر کی تعمیر کی پروگریس رپورٹ اور ژوب بائی پاس کی موجودہ صورتحال سے متعلق معاملات زیر بحث لائے گئے۔ اس موقع پر این ایچ اے سمیت دیگر حکام کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی گئی۔ کمیٹی اجلاس کے پہلے دن حکام کی انتہائی کم تعداد نے شرکت کی۔ میں نے اتنی کوششیں کرکے یہ اجلاس کوئٹہ میں رکھوایا، مگر یہاں متعلقہ محکموں کے حکام نے شریک نہ ہوکر ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔ لیکن کمیٹی اجلاس کے دوسرے روز متعلقہ افسران نے شرکت کی تھی اور اس موقع پر بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی جلد از جلد تکمیل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
قومی اسمبلی کی مذکورہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں منعقد کرانے کے لئے میں نے کافی کوششیں کیں۔ اس سے قبل کئی مرتبہ اجلاس کوئٹہ میں رکھا گیا، مگر پھر ملتوی کرنا پڑا۔ اجلاس کا کوئٹہ میں منعقد کرانا اس لئے ضروری تھا کہ ایک تو کمیٹی کے اراکین کو یہاں بیٹھ کر صورتحال سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ این ایچ اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے صوبائی سربراہوں سے بھی یہاں کے معاملات پر بریفنگ لے کر درپیش مسائل کے حل میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: قومی شاہراہوں پر ٹراما سینٹر کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ ایک تو ہمارے صوبے میں اچھی شاہراہیں بہت کم ہیں، اوپر سے جو شاہراہیں تعمیر ہوئی ہیں، ان پر طبی مراکز کی کمی بہت زیادہ محسوس کی گئی ہے۔ آئے روز ہماری قومی شاہراہوں پر تیز رفتاری اور دیگر وجوہات کی بناء پر حادثات رونماء ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیور حضرات کو خصوصی طور پر احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔ آئے روز پیش آنے والے ٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اکثر ہلاکتیں اس بناء پر ہوتی ہیں کہ دور دراز علاقوں سے زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچانے اور انہیں کوئٹہ منتقل کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے کے حلے کے لئے ضروری ہے کہ قومی شاہراہوں پر ٹراما سینٹر قائم کئے جائیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایگزیکٹو بورڈ نے بلوچستان میں 14 ایمرجنسی ریسپانس ٹراما سینٹرز بنانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔

اسلام ٹائمز: کمیٹی اجلاس میں اور کونسی تجاویز دی گئیں۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
اجلاس میں متعدد اہم تجاویز سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر موٹر وے پولیس کی تعداد میں اضافے کی تجویز، حادثات کا شکار ہونے والے افراد کے بہتر علاج و معالجے کے لئے ٹراما سینٹر کی تعمیر کے منصوبے کو بھی عملی جامہ پہنانے کی سفارش کی گئی۔ اس سلسلے میں این ایچ اے اور دیگر حکام کی جانب سے ہمیں جلد کام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ پشین، سے لورلائی تک سڑکوں کی تعمیر عوام کی اولین ضرورت ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قلات ٹو کوئٹہ چمن شاہراہ کے کام کے دوران خطیر رقم بچا لی گئی ہے۔ جس سے طور ناصر پھاٹک سے ہزار گنجی تک 22.7 کلو میٹر شاہراہ تعمیر کی جائے گی۔ معیشیت کی بہتری اور لوگوں کی خوشحالی کے لئے شاہراہوں کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ پشین تا لورلائی روڈ کو وفاق کے سپرد کرنے سے متعلق کیس کو منظوری کے لئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایگزیکٹو بورڈ کے پاس بھیج دیا گیا ہے، جس کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری سے مذکورہ سڑکوں کو نیشنل ہائی وے میں شامل کر لیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: سی پیک کے مغربی روٹ میں تبدیلی سے متعلق قائمہ کمیٹی میں آپ نے کس طرح آواز بلند کی ہے۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس سے پورے خطے میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لئے ہمیں ابھی سے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ہماری کمیٹی کے سابق چیئرمین سفیان یوسف کو میں نے باقاعدہ تحریری طور پر لکھ کر دیا تھا کہ سی پیک میں بلوچستان کو سب سے زیادہ اہمیت ملنی چاہیئے۔ ڈی آئی خان سے ژوب اور ژوب سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے گوادر کا جو روٹ ہے، یہ اس میں لازمی طور پر شامل ہونا چاہیئے۔ اس وقت ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اصل روٹ یہی ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ روٹ تبدیل ہوا۔ اس پر ہم نے وفاق کے ساتھ بھرپور احتجاج بھی کیا۔ بعد میں آپ نے دیکھا کہ باقاعدہ افتتاح ہوا، مگر جب بجٹ آیا تو اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ مغربی روٹ کو مرکزی اہمیت حاصل ہو اور اس پر جلد از جلد کام مکمل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے بلوچستان میں انڈسٹریل زونز کا قیام عمل میں آئے گا۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے، جبکہ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی بدولت ہم صوبے سے بیروزگاری کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک کے مغربی روٹ کو اب تک مرکزی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا نیشنل ہائی وے اتھارٹی بلوچستان میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
این ایچ اے اس طریقے سے کام نہیں کر رہی، جس طرح اسے کرنا چاہیئے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں انہیں چاہیئے کہ تمام زیر تکمیل منصوبوں کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ مگر بدقسمتی دیکھئے کہ جب ہم این ایچ اے والوں کو بلاتے ہیں تو وہ ہمارے اجلاسوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

اسلام ٹائمز: کبھی کراچی یونیورسٹی میں پشتون یا بلوچ قوم کیساتھ محاذ آرائی کی خبریں آتی ہیں تو کبھی پنجاب یونیورسٹی یا قائداعظم یونیورسٹی سے۔ آپکی جماعت بلوچستان سے باہر جانیوالے طالبعلموں کے حقوق کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔؟
نیسمہ حفیظ پانیزئی:
ملک بھر میں پشتون و بلوچ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں پہلے سے ہی حالات صحیح نہیں اور یہاں سے باہر جانے والے طالباء پر آئے دن تشدد ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔ ہم نے صوبائی سمیت وفاقی سطح پر اس سے متعلق آواز بلند کی ہے۔

اسلام ٹائمز: نقیب اللہ محسود کے قتل سے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گی۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
پشتونوں نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ پشتون قیادت، پشتونخوا وطن اور ملک کے مختلف حصوں میں پشتونوں کے قتل عام پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ وقت کی ضرورت ہے۔ پشتونوں کو ایک منصوبے کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ملک میں پشتونوں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ امریکہ اور روس کے بعد یہاں کی قوتوں نے بھی پشتونوں کو نہیں بخشا، پنجاب میں پشتونوں پر کاروبار اور تعلیم کے دروازے بند کئے گئے۔ وزیرستان میں آپریشن کرکے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا، مگر کوئی بھی دہشت گرد پکڑا نہیں گیا۔ کراچی میں مزدوری کے لئے نہیں چھوڑتے۔ اب پشتونوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان وطن میں لگی آگ پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان حکومت کی تبدیلی سے متعلق آپکا کیا موقف ہے۔؟
نسیمہ حفیظ پانیزئی:
بلوچستان میں واحد ہماری پارٹی تھی، جس نے میدان میں رہ کر سیاسی مخالفین کا مقابلہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین خود بھاگ گئے تھے، جبکہ حاصل بزنجو کی پارٹی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر مخالفین کی مدد کی۔ نواز شریف صرف آئین و قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں، جس پر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو غور کرنا ہوگا اور اسی وجہ سے نواز شریف کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اسی نواز جنگ کی آگ بلوچستان میں بھی دیکھی گئی۔ پاکستان میں کرپشن انتہاء کو پہنچ چکی ہے، جس کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔ تاہم اس ناسور کا حاتمہ کرپشن کا راگ الاپنے سے نہیں ہوگا۔ کرپشن صرف سیاستدانوں اور شریف خاندان میں نہیں بلکہ جرنیلوں، ججز اور جرنلسٹوں میں بھی موجود ہے۔ یہاں کوئی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کی بات کرنے والے صرف نواز شریف کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 703947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش