0
Friday 9 Feb 2018 19:56

فوج اور عدلیہ کے حوالے سے بیانات ہماری پارٹی پالیسی نہیں، یہ آئین اور قانون کیخلاف ہے، ڈاکٹر نادیہ عزیز

فوج اور عدلیہ کے حوالے سے بیانات ہماری پارٹی پالیسی نہیں، یہ آئین اور قانون کیخلاف ہے، ڈاکٹر نادیہ عزیز
مسلم لیگ نون سرگودہا کی رہنماء اور رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر نادیہ عزیز 18 فروری 1973ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئیں، 1997ء میں علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کرنیکے بعد سے وہ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ 2002ء سے 2007ء تک رکن صوبائی اسمبلی پنجاب رہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہوئیں۔ پنجاب کی پبلک اکاوئنٹس کمیٹی اور صحت کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی رکن ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کی چارہ گری زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی، کیا وجوہات ہیں کہ حکمران جماعت ریاستی اداروں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
پہلی تو بات یہ ہے کہ کسی کو عدلیہ اور فوج سے کوئی کینہ نہیں ہے، البتہ جذبات کا اظہار ضرور ہوتا ہے، جب دونوں طرف سے اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکے اور عوامی رائے اداروں کے فیصلوں سے مختلف ہو تو آوازیں اٹھتی ہیں، جو سنی جانی چاہیں۔ اسی میں ملک کا مفاد ہے۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے، تحمل سے کام لینا چاہیے۔ فوج اور عدلیہ کیخلاف بیان بازی نہیں ہونی چاہیے، اس میں کوئی دوری رائے نہیں کہ طلال چودھری اور دانیال عزیز کے بیان سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو ان کو معذرت کرنی چاہئے، فوج اور عدلیہ کیخلاف بیان کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک چیز قابل غور ہے کہ جنہوں نے ججز کو گردنوں سے پکڑ کر گھسیٹا، انہیں بند کیا اور مرضی کے فیصلے لئے، آج تک انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، نہ انہیں کبھی طلب کیا گیا، مشرف جیسے لوگ کس قانون کے تحت دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارے متعلق کوئی بات کرتا ہے تو گذشتہ حکومتوں میں ہونے والی باتوں کا تذکر کیا جاتا ہے، نو سال ملک میں ڈکٹیٹر رہا، اس پر الزامات لگے ہیں اور کورٹ ہی کے آرڈر کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ ہم تو عوام کے سامنے بات رکھتے ہیں، ہمیں یہ کہا گیا کہ یہ توہین کے زمرے میں آتا ہے، لیکن ایک شخص اور بھی ہے، جس نے کچھ کام کئے ہیں، ان کے خلاف کارروارئی ہونی چاہیے۔ ہر سیاستدان برابر ہوتا ہے، وزیراعظم بھی ایک ایم این اے ہوتا ہے، اسے لوگ ووٹ دیتے ہیں، اسمبلی میں آتا ہے اور پھر وزیراعظم منتخب ہوتا ہے۔ جلسوں میں جذباتی باتیں ہو جاتی ہیں، مجھ سے بھی ہوتی ہیں، اپنی قیادت کو اسپورٹ کرنا چاہیے، لیکن ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میاں نوار شریف نے کبھی کسی کو نہیں کہا کہ آپ نے ایسی بات کرنی ہے، جلسوں میں جذباتی باتیں ہوتی ہیں۔ اسمبلی میں بھی بعض اوقات جذباتی باتیں ہو جاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک رہنما جنہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا، وہ ثابت نہیں کرسکے کہ وہ صادق اور امین ہیں، دوبارہ کیسے سیاست کرسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ ایک قانونی بحث ہے، اب یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے، جسکا براہ راست عوام سے تعلق ہے، آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے اور اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ہے، آسان نہیں۔ آرٹیکل 62 ون ایف میں ابہام یہ ہے کہ اس میں وضاحت نہیں کہ ڈکلیئریشن کون سی عدالت دے گی۔ 1985ء تک کسی رکن کی نااہلی کے لئے عدالتی فیصلہ ضروری نہیں تھا۔ جو کام پارلیمنٹ نے نہیں کیا، وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے، سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی پارلیمنٹ کو کرنی چاہیے۔ عدالت کی صوابدید نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے نااہلی کی مدت کا تعین کرے، ایک معیار ہونا چاہیے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ عدالتی فیصلہ اپنی جگہ پر، گو اس میں بحث ہوسکتی ہے، اصل تو لیڈر کا انتخاب عوام کا حق ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف دیکھیں آرٹیکل 6 کے مجرم یا ملزم کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہ جموریت کا منہ چڑھانے کے مترادف ہے۔ اس پر سوموٹو آ جائے تو عوام کو بھی جواب مل جائے گا کہ عدلیہ یکطرفہ نہیں ہے، ورنہ یہ تاثر تو پیدا ہوتا ہے کہ پالیسی ایک نہیں بلکہ کسی کیلئے کچھ ہے اور کسی کیلئے کچھ ہے، فیصلہ اگر یہ تاثر دے کہ یہ انصاف کی بجائے کسی خاص سوچ یا پالیسی کی عکاسی کر رہا ہے، تو یہ اتنا واضح ہوتا ہے کہ ان پڑھ بھی سمجھ سکتا ہے، سیاسی ورکر زیادہ سوجھ بوجھ اور ہوشیار ہوتے ہیں، پھر اپنے لیڈر سے محبت کا عنصر بھی ہوتا ہے اور میرٹ نظرانداز ہوتا محسوس ہو تو اسی کا اظہار ہوتا ہے، نہ عدالت پر دباؤ ڈالنے کیلئے، اس کو اسی تناظر میں لیا جانا چاہیے، عدلیہ توہیں کے کیسز کو اسی طرح دیکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے شاید اسکی نظیر موجود ہو کہ معافی مانگنے کے باوجود کسی کو توہین عدالت کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا ہو۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کو بھی عدلیہ نے کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، انہیں واپس لانا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
ایسی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پرویز مشرف کو واپس لانے کیلئے کوششیں ہونی چاہیں، انہیں کورٹ نے اجازت دی ہے، وہ علاج کیلئے باہر ہے، ویسے بھی اگر وہ بہادر آدمی ہیں تو واپس آجائینگے۔ پرویز مشرف کو ملک میں لانے کیلئے پراسیس تو جاری ہے، کورٹ کا آرڈر آیا تو یہ عمل مزید تیز ہو جائیگا۔ کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں، آرڈر میں کہا گیا تھا کہ کوئی بندش نہیں ہوگی، روکا نہیں جائیگا اور آرٹیکل 6 کا کیس بھی چلتا رہے۔ اس پہ تو تبصرہ ہوسکتا ہے، میرے نزدیک اس سے کسی بھی طرح توہین عدالت نہیں ہوتی، نہ کسی جج کی تضحیک کا پہلو سامنے آتا ہے۔ یہ مشرف جیسے لوگ ہیں، جو عدالتوں کی توہین کر رہے ہیں، ساتھ اسکا اظہار بھی کرتے ہیں، عدلیہ کو اور سیاستدانوں کو چھوٹا ظاہر کرنے کیلئے فوج کو اپنا حامی ظاہر کرکے اداروں کے درمیان دوریاں پیدا کر رہے ہیں۔

 اسلام ٹائمز: شہباز شریف بڑے بھائی کیطرف سے اشارہ ملنے کے بعد خادم پاکستان بننے کا اظہار کرچکے ہیں، مظفر آباد میں نواز شریف نے مریم کو خصوصی طور پر اسٹیج پر بلا کر جو پیغام دیا گیا ہے، کیسے معلوم ہو کہ نون لیگ کے آئندہ وزیراعظم کون ہونگے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
مسلم لیگ سیاسی جماعت ہے، جمہوری جماعتوں کے فیصلے جلسوں میں نہیں بلکہ اجلاسوں میں ہوتے ہیں، یہ طے شدہ ہے، کچھ طے ہونا باقی ہے۔ مریم نواز کو کارکنوں کے اصرار پر بلایا گیا، مریم آئندہ کی لیڈر بھی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، جن حالات میں انہوں نے جرات دکھائی ہے، اسکا ہر کوئی معترف ہے۔ وزیراعظم کیلئے (ن) لیگ کے حتمی امیدوار کا فیصلہ انتخابات کے بعد ہوگا، الیکشن کی کامیابی میں شہباز شریف کا اہم کردار ہوگا، ماضی میں فیصلہ ہوچکا ہوتا تھا کہ نواز شریف وزارت عظمٰی کے امیدوار ہونگے، اس بار اگر پارٹی اکثریت حاصل کریگی تو پارٹی کی میٹنگ میں فیصلہ ہوگا کہ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا؟ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے پنجاب میں محنت کی ہے، دوسروں صوبوں میں واضح فرق ہے، ہمارے بدترین مخالف بھی شہباز شریف کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی الزام نہیں لگاتے۔ وزارت عظمٰی کے امیدوار کے حوالے سے فیصلے الیکشن میں اکثریت آنے کے بعد ہوتے ہیں۔ مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کے حوالے سے ایسی کوئی بات پارٹی میں ڈسکس نہیں ہوئی ہے، لیکن مریم نواز ایک مثالی لیڈر ثابت ہوسکتی ہیں۔ موجودہ وزیراعظم کو دیکھ لیں، وہ خود پہلے امیدوار تھے، نہ آج امیدوار ہیں۔ نواز شریف کی پالیسیوں اور کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور یہی ہمارا مینڈیٹ تھا۔ پاناما کیس سے قبل حکومت نے کام شروع کئے، قومی سطح کے پراجیکٹ کا ہر ہفتے افتتاح ہو رہا ہے، یہ جون تک سلسلہ مکمل نہیں ہوگا، آگے چلتا رہے گا۔ مسلم لیگ (ن) نے جو ترقیاتی کام کئے ہیں، اس کی مثال 65 سالوں میں نہیں ملتی۔

اسلام ٹائمز: پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں ہمارے پاس بھارت اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنیکا بہترین راستہ کیا ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
ہمیں اپنے اصولوں، خود مختاری اور عزت و وقار پہ کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہتر رہیں تو اچھا ہے، لیکن کسی طاقت کے طعنے آتے ہیں تو امریکی امداد نہ ملنے کے باوجود پاکستان چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ دہشت گردی خود عالمی طاقتوں کی پیداوار ہے، ہزاروں جانوں کی قربانی سے پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ کیا، ہمیں امداد نہیں برابری کی سطح پر عزت اور وقار چاہیئے۔ جہاں تک افغانستان اور بھارت کا تعلق ہے پاکستان نے کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے، دہشت گرد افغانستان سے آکر پاکستان میں حملہ کرتے ہیں، افغانستان کا مسئلہ مذاکرات اور بات چیت سے ہی حل ہوگا، افغانستان میں امن کی کوششوں میں دنیا میں کوئی ملک پاکستان سے زیادہ اہم اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ کلبھوشن نے تسلیم کیا ہے کہ چین پاک اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارت نے دہشت گرد نیٹ ورک تیار کر رکها ہے۔ اس پہ دنیا آنکھیں بند نہیں کرسکتی، نہ ہی پاکستان اس مسئلے کو نظر انداز کرسکتا ہے۔ امریکہ سے تعلقات میں سرد مہری ہے۔ دھمکی کی زبان قبول نہیں۔ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے الزامات پرانے ہوچکے ہیں، افغانستان کی جانب سے الزام تراشیاں قبول نہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم موڑ پر کھڑا ہے اور امداد کی جگہ، تجارت میں وسعت لانا چاہتا ہے۔

انتہاء پسندی کی بنیادی وجہ بے روزگاری اور غربت ہے، اسکا خاتمہ تجارت اور معاشی سرگرمی سے ہوسکتا ہے، جس پر توجہ دینی ہوگی۔ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں، بھارت کو کابل میں بیٹھ کر سازشی عمل ترک کرنا ہوگا، کیونکہ پرامن افغانستان پاکستان سمیت خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے لئے اب بھی امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہوگی، بھارت کی نہیں، ہمارے بغیر افغانستان میں جنگ جیتنے کے امکانات کم ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی سے خطے میں عدم استحکام ہوگا، پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، امریکی الزامات سے دونوں ملکوں میں بے اعتمادی بڑھ رہی ہے، بہتر ہوگا کہ دونوں ملک بیٹھ کر بات چیت سے بے اعتمادی کا خاتمہ کریں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر رہیں، ہمارے ساتھ بہتر تعلقات سے ہی امریکہ سکیورٹی خدشات سے نمٹ سکتا ہے، ہم تو اپنے دفاعی چیلنجز سے خود نمٹ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم کی فضا اور فوج پر تنقید کے پیچھے غیر ملکی ایجنڈا موجود ہے، سول ملٹری تناؤ کی اصل وجہ یہی ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ طالبان خان کا پروپیگنڈہ ہے، ایسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں، سول ملٹری تعلقات اچھے ہیں، تحفظات پوری دنیا میں رہتے ہیں، قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ ہوتی ہے تو ہر چیز پر کھل کر اظہار ہوتا ہے، بات چیت سے تحفظات دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن پالیسی کو بہتر بنانا حکومت کا کام ہے، اگر اس میں حقیقت ہوتی تو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مطلوب نتائج تک پہنچنا ناممکن تھا، میرے خیال میں یہ سوچنا ہی ملک و قوم کیساتھ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے جو لوگ یہ شوشا چھوڑ رہے ہیں، وہ ملک کے خیرخواہ نہیں، بلکہ دشمن کے ایجنٹ ہیں۔ نون لیگ اور بالخصوص میاں نواز شریف تو پاکستان دشمن قوتوں کی آنکھ کا کانٹا ہے، فوج پر تنقید تو ہوسکتی ہے، لیکن فوج کے بارے میں منفی رائے رکھنا اور کسی بھی غیر ملک کو خوش کرنے کیلئے فوج کی مخالفت کرنا، ناقابل معافی جرم ہے۔ پاکستانی فوج اور عوام کے درمیان کے جو مضبوط تعلق ہے، اس کے ہوتے ہوئے فوج کو اداروں کیساتھ لڑانے یا سیاستدانوں اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب ہو ہی نہیں سکتی، عوام ایسے عناصر کو قبول کر ہی نہیں سکتے۔
خبر کا کوڈ : 703375
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش