1
0
Monday 12 Feb 2018 17:46

مودی اسرائیل کا چپراسی

مودی اسرائیل کا چپراسی
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

حالیہ دنوں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے فلسطین سمیت اردن، عرب امارات اور مسقط کا دورہ کیا ہے، اس دورے کا وقت انتہائی اہم ترین ہے کہ جب کچھ ماہ قبل مودی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں اور اب کچھ دن قبل ہی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور اب مودی کا یہ چار ملکی دورہ بہت سے سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ متعدد سوالات سے پردہ بھی اٹھا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مودی عرب امارات سے ہوتے ہوئے اردن پہنچے، جہاں سے پھر فلسطین آئے اور محمود عباس سے ملاقات بھی کی، اس ملاقات میں مودی نے بھارت کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی اور وعدہ کیا کہ بھارت فلسطینیوں کے مفادات کو فراموش نہیں کرے گا۔  حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ مودی کے پڑوس میں ہی ایک خطہ وادی کشمیر کہلاتا ہے، جہاں روزانہ کی بنیادوں پر کشمیریوں کے حقوق پائمال کئے جا رہے ہیں اور پھر ابھی چند ماہ پہلے ہی تو مودی اور نیتن یاہو کی مسلسل دو ملاقاتوں میں فلسطین کو فراموش کیا گیا تھا تو اب آخر مودی فلسطین کے کمزور ترین صدر محمود عباس کو کیا یقین دلانا چاہتے ہیں؟ یا پھر یہ کہ وہ دنیا بھر میں اور بالخصوص بھارت میں فلسطین کے معاملے پر عوامی غم و غصہ کو کم کرنا چاہتے ہیں یا شاید یہ کہ اس دورہ میں مودی نے اسرائیل کا ایک سچا اور پکا نمک خوار ہونے کا یقین دلوایا ہے۔

اب ذرا ان ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیجئے کہ جہاں سے ہوتے ہوئے اسرائیلی نمک خوار مودی فلسطین جا پہنچے تھے۔ عرب امارات، جی ہاں آج کل عرب امارات کھلم کھلا خلیج دنیا میں ایک ایسا پولیس مین بنا ہوا ہے کہ جس نے نہ صرف بحرین بلکہ یمن میں بھی جاری فوجی حملوں کی کمان سنبھال رکھی ہے اور یمن میں جاری یکطرفہ عرب بادشاہوں کی جنگ کی کمان کو سنبھالے ہوئے ہے، اب مودی نے یقیناً یہاں پر اسرائیل کی خیر خواہی میں ان کو یہی پیغام دیا ہوگا کہ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر اس جنگ کو جاری رکھو، یہ خیال مت کرنا کہ یمن میں مارے جانے والے ہزاروں معصوم انسان مسلمان ہیں یا انسان بھی ہیں۔ یقیناً مودی نے اپنے کشمیر کے تجربات یہاں اماراتی شاہوں کے ساتھ شیئر کئے ہوں گے، تاکہ ان کو حوصلہ ملے کہ دنیا چاہے جتنی ہی مخالفت کرتی رہے، لیکن کیونکہ اسرائیل کا تحفظ سب پر مقدم ہے، اس لئے یمن میں جو جنگ مسلط کر رکھی ہے، اسے روکنا مت، کیونکہ یمن کے عوام کا پہلا نعرہ تکبیر، دوسرا رسالت اور پھر مردہ باد امریکا اور مردہ باد اسرائیل ہے۔ اسی طرح اب ذرا اردن کی بات کریں کہ جو ہمیشہ سے ہی عالمی استعمار کی غلامی کرنے کو ہی اپنی عاقبت تصور کرتا آیا ہے اور انہی دنوں کہ جب مودی اردن میں دورے پر تھے، اردن میں اسرائیلی سفارتخانے کو از سر نو کھولا گیا اور نیا اسرائیلی سفیر بھی متعین کیا گیا ہے، یہاں بھی یقیناً مودی نے اسرائیل کی زبان بولتے ہوئے ان عرب شہنشاہوں کو سمجھایا ہوگا کہ دیکھو نہ تو فلسطین کے مظلوموں کی بات کرنا اور نہ ہی کشمیر کی طرف آنکھ اٹھانا، اگر پاکستان سے کوئی تمھیں کشمیر پر حمایت کرنے کے لئے کہہ دے تو آنکھیں اور کان بند کر لینا۔

عرب امارات اور اردن میں اسرائیلی لوری سنانے کے بعد مودی فلسطین پہنچے اور فلسطینی صدر محمود عباس سے گرمجوشی سے ملاقات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت فلسطین کے عوام کے مفادات کو فراموش نہیں کرے گا، اس موقع پر انہوں نے بھرپور تاکید کی کہ اسرائیل کے ساتھ تمام معاملات کو گفتگو و مذاکرات کے ساتھ حل کر لیں۔ یہ ایک اور واضح دلیل ہے کہ مودی کا دورہ دراصل اسرائیل کے لئے تھا نہ کہ بھارت کے لئے، مودی کے اس فعل نے بھارت کے عوام کی تذلیل کی ہے کہ ایک عرب سے زائد آبادی رکھنے والا ملک اور اس کا وزیراعظم ایک جعلی ریاست اسرائیل کا چپراسی بن کر خطے میں پیغام رسانی کرتا پھر رہا ہے۔ دراصل حقیقت تو یہی ہے کہ بھارت کے وزیراعظم مودی کا درجہ کسی چپراسی کم نہیں ہے، لیکن افسوس ہوتا ہے بھارت کے عوام پر کہ جنہوں نے ایک چپراسی کو اپنا وزیراعظم بنا کر پوری دنیا میں اپنا وقار خاک کر لیا ہے۔ مودی نے حالیہ دنوں ان چار ممالک کا دورہ کرکے اسرائیل کے چپراسی کا کردار شاید اس لئے بھی ادا کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف امریکی صدر کے القدس سے متعلق آنیوالے بیان کے بعد سے شدید دباؤ تھا، کیونکہ اس بیان کے بعد پوری دنیا نے جہاں امریکہ و اسرائیل کی مذمت کی، وہاں القدس کی تاریخی حیثیت کو بھی فلسطین سے قرار دیا، جس کے بعد جعلی ریاست اسرائیل میں شدید خوف و ہیجان کی کیفیت ہے اور اس کیفیت کی وجہ فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ ہے کہ جو مسلسل جاری ہے اور مغربی کنارہ میں اسرائیل کو اب شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب کسی بھی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے اور بالخصوص امریکہ کو کسی بھی قسم کے فلسطین سے متعلق مذاکرات کا مینڈیٹ نہیں دینے دیں گے، جو ماضی میں فلسطینی اتھارٹی یا محمود عباس دے چکے تھے، یہی وجہ ہے کہ مودی نے بھی بارہا فلسطینی صدر سے کہا کہ وہ تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کر لیں۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا دورہ فلسطین بھارت و فلسطین تعلقات کم بلکہ اسرائیلی چپراس گیری پر زیادہ مبنی تھا۔ بہرحال عرب امارات، اردن اور فلسطین سے نکلنے کے بعد اب اسرائیلی چپراسی مودی مسقط گئے ہیں، مسقط کے بارے میں عرض ہے کہ اس وقت خلیج دنیا کا واحد عرب ملک ہے کہ جس نے نہ تو دوسرے عرب بادشاہوں کی طرح داعش بنانے میں امریکہ کی مدد کی، نہ ہی فلسطین سے متعلق کوئی خیانت سرزد کی، نہ ہی دیگر عرب بادشاہوں کی طرح یمن کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ کا حصہ بنا، اسی طرح اور کئی ایک اقدامات ایسے ہیں کہ جو مسقط اور یہاں کے حکمرانوں کو خطے کی امریکی و اسرائیلی غلام عرب ریاستوں سے منفرد کرتے ہیں، اب مودی کا یہاں آنے کا مقصد بھی واضح ہے کہ شاید ان کو ڈرایا دھمکایا جائے یا پھر یہ کہ اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدوں کی لالچ دے کر مسقط کو بھی دیگر عرب پٹھو ممالک اور ان کے بادشاہوں کے طرح اسرائیلی نمک خوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یقین قوی ہے کہ مسقط کی خودار اور باغیرت حکومت کسی بھی ایسے فیصلے یا اقدام میں شامل نہیں ہوگی کہ جس کا براہ راست نقصان مسلم امہ کو پہنچتا ہو یا مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب بنے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایشیاء کا ایک قاتل دوسرے غاصب اور قاتل کی بقاء کے لئے مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں سے ملتا پھر رہا ہے اور کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح اسرائیل کا تحفظ یقینی ہو جائے، جبکہ حقیقت میں یہ قاتل تو خود دسیوں ہزار مظلوم انسانوں کا قاتل ہے، جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہاں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان عرب ریاستیں اور بادشاہتیں امریکہ اور اسرائیل کا اربوں ڈالرز کا اسلحہ خرید کر یمن میں استعمال کر رہی ہیں، یمن کو بالکل غزہ کی طرح محصور کیا گیا ہے، جہاں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسی لاکھ افراد کی زندگیاں موت کے قریب جا پہنچی ہیں، لیکن یہ عرب و مسلمان دنیا ہے، جو غزہ و فلسطین کو بھول کر، کشمیر کی مظلومیت کو بھول کر، برما کی مظلومیت کو فراموش کرکے، افغانستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے دہشت گردانہ حملوں کو بھول کر، عراق میں امریکہ کے ہاتھوں لاکھوں انسانوں کا قتل عام بھول کر، اگر کوئی کام کر رہی ہیں تو یہ عرب ریاستیں یا تو داعش بنانے میں امریکہ کی مدد کرتی رہی ہیں، یا پھر آج کل شام میں النصرۃ نامی دہشت گرد گروہ کو ازسر نو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، یا پھر پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی مدد کرکے پاکستانیوں کا قتل عام کروانے میں مصروف ہیں، یا پھر امریکہ و اسرائیل سے اربوں ڈالرز کا اسلحہ لے کر یمن پر بمباری کرکے دسیوں ہزار مظلوم یمنی مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں، ان کے نزدیک فلسطین کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کہ اسرائیل اور بھارت جو چاہے کر​​ تے رہیں لیکن یہ عرب بادشاہ تو مسلمانوں کا ہی خون بہائیں گے۔ جب مسلم دنیا کے حکمران امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی کرتے رہیں گے تو پھر مودی جیسے چپراسی بھی فلسطین کاز کا سودا کرنے کے لئے اسرائیلی نمک خواری کیوں نہ کریں گے۔

​تعارف: ​ صابر ابو مریم کا تعلق شہر قائد (کراچی) سے ہے۔ فلسطین کاز سے متعلق فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے بانی اور سیکرٹری جنرل ہیں اور ہمیشہ فلسطین کے مظلوموں کے حقوق کے دفاع کے لئے صف اول میں رہتے ہیں اور پی ایچ ڈی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ روزنامہ ایکسپریس کے لئے کالم نویسی میں مشغول رہتے ہیں، اب تک فلسطین اور مشرق وسطٰی کے حالات و واقعات سے متعلق دو سو سے زائد کالم شائع ہوچکے ہیں، جبکہ متعدد بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس پر بھی ان کے تبصرے اور تجزیات شائع ہوتے رہتے ہیں، فلسطین کاز کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں، پاکستان میں فلسطین کاز کے لئے آواز بلند کرنے والی چند ایک چیدہ چیدہ شخصیات میں نمایاں ہیں، جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ریسرچ پر کام کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ہر طرح کی پائمالی پر ہمیشہ صدائے حق بلند کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں، دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں منعقد ہونے والی کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، حال ہی میں انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کی پارلیمنٹ میں ہونے والی بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ سماجی خدمات میں مصروف عمل رہتے ہیں، ایک اچھے اسکاؤٹ اور اسکاؤٹ ٹرینر بھی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 704349
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
You are right. The butcher of Gujarat is acting like a peon of fake state of Israel.
ہماری پیشکش