2
0
Tuesday 6 Feb 2018 17:30

امریکہ کے اتحادی مسلم حکمران ایک دوسرے کیخلاف صف آراء

امریکہ کے اتحادی مسلم حکمران ایک دوسرے کیخلاف صف آراء
تحریر: عرفان علی

پچھلے چار عشروں پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمان نما اور عرب نما حکمران جعلی ریاست اسرائیل کے سرپرست امریکہ کی اطاعت میں اتنے مدہوش ہوئے کہ آگے کی سمت سفر کے بجائے ماضی بعید یعنی دور جاہلیت میں پہنچ گئے۔ اسلام سے تو وہ بہت پہلے ہی دستبردار ہوچکے تھے، لیکن امریکی بلاک جیسی قدر مشترک بھی انہیں دھڑے بندیوں سے بچا نہیں پا رہی۔ اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد امریکی بلاک میں شامل ان سیاسی بونوں نے اپنا قد اونچا کرنے کے لئے ’’مجوسی عجم‘‘ کے خلاف صدام کو کھڑا کر دیا اور پھر وہی صدام انہی پر چڑھ دوڑا۔ پھر یہ سبھی صدام کے سر پر امریکہ کے ساتھ گدھوں کی طرح منڈلانے لگے، اس کا خاتمہ ہوا تو اب، عجم، عرب کا نعرہ ختم کرکے عربوں کو سنی، شیعہ میں تقسیم کرکے نیا فرقہ پرستانہ بیانیہ پھیلا دیا گیا، حالانکہ عربوں میں تو مسیحی عرب بے چارے تو مسلمان بھی نہیں ہیں، لیکن امریکہ کے اتحادی ان نام نہاد ’’سنی‘‘ عرب حکمرانوں کا کوئی بیانیہ مسیحی عربوں کے خلاف دیکھنے سننے کو نہیں ملا! پھر جب ان سب کاریگروں نے دیکھا کہ اس طرح تو عراق کا شیعہ عرب، ایران کے عجم سے جا ملے گا، تو عراقی عرب مذہبی شیعہ کی بھی سعودی سلطنت میں آؤ بھگت ہونے لگی۔

ایران آرہا ہے، ایران چھا رہا ہے! جیسے گمراہ کن نعروں کے ذریعے ایران فوبیا کا مرض عالم اسلام و عرب میں پھیلا دیا گیا۔ فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن، بحرین، سعودی عرب، جہاں بھی کوئی اسرائیل مخالف آواز بلند ہوئی، الزام ایران پر لگا کر اسے مسائل کا ذمے دار ٹھہرانے کی روش، یہ سبھی کچھ آج کی وہ زندہ حقیقت ہے، جسے عالم اسلام و عرب کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ لیکن جو چیز عالم اسلام و عرب سے چھپائی جا رہی ہے، وہ زندہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اتحادی مسلمان حکمران خود آپس میں متحد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ ہم آج علامہ اقبال کے اس شعر کو مجسم دیکھ رہے ہیں کہ "فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ!" آج کی اس دنیا کا سب سے بڑا شاطر امریکی سامراج ہے اور یہ سب نام نہاد اتحادی مسلمان و عرب نما حکمران اس کے مہرے ہیں، فرزیں ہیں! انیس سو اسی کے عشرے کے لئے صہیونی مفکر اوڈڈ ینون نے جو سازشی منصوبہ برائے تقسیم مسلمانان و عرب تجویز کیا تھا، اس پر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں تیزی سے عمل ہو رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عمل پیرا بھی کوئی اور نہیں خود امریکی اتحادی حکمران ہی ہیں، جن کا در پردہ جعلی ریاست اسرائیل سے تعلق استوار ہوچکا ہے! اس وقت قطر اور ترکی کو مصر کی اخوان المسلمون کا دوست اور مددگار ملک کہہ کر ان سے فاصلہ رکھا جا رہا ہے، لیکن یہی دونوں ملک شام کی بشار الاسد حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے امریکی منصوبے کا اہم مہرہ تھے۔

انقلاب اسلامی ایران کے بعد اسلامی ایران کے خلاف امریکی پٹھو خلیجی عرب حکمرانوں نے خلیجی تعاون کاؤنسل (جی سی سی) تشکیل دی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ پچھے سال دسمبر میں کویت میں اس علاقائی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں صرف میزبان ملک اور قطر کے سربراہ مملکت نے شرکت کی۔ عمان بھی اس تنظیم کا بانی رکن ہے، لیکن وہ سعودی عرب کی مسلط کردہ یمن جنگ میں شریک نہیں ہو رہا۔ کویت اور عمان ایران کے خلاف اس حد تک جانے کے لئے آمادہ نہیں، جتنا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی خواہش ہے! کہا جا رہا ہے کہ آج کل متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب یک جان دو قالب بن چکے ہیں، لیکن یمن کی جنگ کی تازہ ترین صورتحال بتا رہی ہے کہ وہاں دونوں دو الگ الگ مہروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب جنوبی یمن میں منصور ہادی عبد ربہ کو حکمران مانتا ہے جبکہ جنوبی یمن کی علیحدہ پسند تحریک اور اس کی عبوری کاؤنسل کو متحدہ عرب امارات نے تسلیم کر لیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پورے بحر احمر میں جا بجا متحدہ عرب امارات کی فوجی موجودگی ہے۔ یمن کی بندرگاہوں عدن، موکھا، مکلہ، جزیرہ پیریم (باب المندب) میں متحدہ عرب امارات کی فوج موجود ہے۔ خلیج عدن میں صومالیہ کے علاقے بربرہ میں اور اریٹیریا کے علاقے عصب میں متحدہ عرب امارات کے فوجی اڈے ہیں۔ خلیج عدن، باب المندب تا سوئز کینال، بحر احمر سے چالیس لاکھ بیرل یومیہ تیل گزرتا ہے، یعنی یہ علاقہ عالمی تجارت کی اہم گذرگاہ ہے۔ بحر احمر میں سوڈانی جزیرے سواکن میں فوجی اڈے کی تعمیر کے لئے ترکی اور سوڈان میں معاہدہ ہوچکا ہے۔ مصر اور سوڈان میں کشیدگی عروج پر ہے اور سوڈان نے مصر سے سفیر بھی واپس بلوا لیا ہے، کیونکہ مصر نے اریٹیریا کی سرحد کے قریب اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ سوڈان کو بھی ترکی اور قطر کی طرح اخوان المسلمون کا مددگار قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سوڈان نے ایران کے خلاف سعودی صف بندی میں سعودی عرب کی طرفداری کی، لیکن آج سعودی عرب اسے مصر سے بچانے نہیں آرہا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بظاہر بھلے بہت قریب ہوں، لیکن بحر احمر کے کنارے نیا سعودی شہر بنے گا، یہ کسی اور ملک کے لئے نہیں بلکہ خود متحدہ عرب امارات کے دبئی شہر کے لئے ایک خطرہ تصور کیا جائے گا۔

ایران، ایران، خطرہ، خطرہ کا شور مچانے والا امریکہ اور اس کے اتحادی یہ حکمران جنہوں نے ایران کے خلاف علاقائی بلاک اور اتحاد بنائے، آج انہیں انکی سنیت اور عربیت بھی متحد نہیں رکھ پا رہی۔ لیکن ساتھ ہی دلچسپ اور حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ عرب جو سلطنت عثمانیہ کے خلاف مغربی سامراج کے پٹھو بن گئے تھے، انہیں شام کے خلاف ترکی کی مدد کی ضرورت پڑی تو عجم، عرب کا جھگڑا بھول گئے تھے! آج شام کے علاقے عفرین میں ترک افواج سنی کردوں کو مار رہی ہیں تو بھی دنیا سے کہیں کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ لیکن یہی کرد اگر ایران یا عراق میں ہوتے اور ان پر وہاں کی حکومتوں کی طرف سے کارروائی ہو رہی ہوتی تو پوری دنیا سے فرقہ پرستی کے الزامات صادر ہوتے! ایران پر جھوٹے الزامات اسی لئے لگائے جاتے رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سوڈان، مصر، ترکی وغیرہ کی ان فوجی چالوں اور باہمی اختلافات جو دشمنی کی حد تک جا پہنچے ہیں، ان کو عوام الناس کی توجہ سے دور رکھا جاسکے، ورنہ اس بحر احمر میں، یمن میں، خلیج عدن میں، باب المندب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی و جاسوسی موجودگی نے ہی یہ مسائل ایجاد کئے ہیں، ایران کا ان ممالک میں کسی ایک جگہ بھی فوجی اڈہ نہیں ہے۔ ایران پر الزام لگانے والے امریکی سامراج کے مسلمان اتحادی خود ہی اوڈڈ ینون کے اس سازشی منصوبے پر عمل کر رہے ہیں، جس کے تحت اسرائیل کو ایک بڑی سلطنت بنانا ہے اور شام سے لے کر بر اعظم افریقہ تک مسلمانوں اور عربوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس صہیونی سازشی منصوبے پر خوشی خوشی عمل کیا جا رہا ہے اور عالم اسلام و عرب کے زعماء خاموش ہیں۔ دور جاہلیت کے پروردہ عربوں کے طعنوں کے مقابلے میں اللہ تبارک و تعالٰی نے رسول اکرم ﷺکو کوثر عطا کی تھی اور ان کے دشمنوں کو ابتر قرار دیا تھا۔ آج کے یہ خائن حکمران اچھی طرح غور و فکر کر لیں کہ کہیں نسل کوثر سے دشمنی نے تو انہیں ابتر نہیں کر رکھا ہے!(امام خمینی و امام خامنہ ای فاطمی سادات ہیں اور یہ خائن عرب حکمران ان کے بارے میں نازیبا کلمات کہتے آئے ہیں)
خبر کا کوڈ : 702734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان صاحب کیا بات ہے، خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
Pakistan
سلام۔ بٹ صاحب آپکا، محترم ڈاکٹر صفدر رضا، محترم کمال شاہ اور محترم صفدر رضوی سمیت ان تمام احباب کا شکریہ جنکی جانب سے اس مقالے پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ شکریہ و التماس دعا
ہماری پیشکش