0
Thursday 25 Jan 2018 11:26

امام معصوم کے فضائل و کمالات

امام معصوم کے فضائل و کمالات
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الٰہی   قرار دیتا ہے۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے، سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی الٰہی پہنچاتا ہے، لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام میں بہت سے شرائط اور خصوصیات کا موجود ہونا ضروری ہے۔

1۔ عصمت امام
امام کو عصمت کے درجے پر فائز ہونا چاہیے، تاکہ وہ احکام الٰہی کے بیان میں غلطی نہ کرے، کیونکہ اگر امام معصوم نہ ہو تو لوگوں تک احکام الٰہی کا صحیح ابلاغ نہیں ہوگا، جس کے نتیجے میں تشریع دین اور نبوت کا مقصد ہی ختم ہوگا، جبکہ مقصد کا ختم ہونا حکمت الٰہی کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ لہذا امام کو معصوم ہونا چاہیے۔ شیعہ متکلمین اس استدلال کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: امام کی ذمہ داریوں میں سے ایک شریعت کے احکام کو تحریف و تغییر سے محفوظ رکھنا ہے۔ یعنی کلام الٰہی کی تفسیر اور احکام الٰہی کے بیان میں جتنے اقوال و نظریات بیان ہوتے ہیں، ان کا امام کے کلام کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے حق و باطل میں تمیز کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے شریعت میں کوئی تحریف و تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اگر امام معصوم نہ ہو تو یہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔ علامہ حلی اس دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: صرف قرآن کریم اور سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے شریعت کی حفاظت نہیں ہوسکتی، کیونکہ ان دونوں میں احکام الٰہی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں ہوئے ہیں۔ اسی طرح اجماع مسلمین بھی حافظ شریعت نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر ان کے درمیان کوئی معصوم ہستی موجود نہ ہو تو ان کا کسی بھی غلط چیز پر اجماع کرنا محال نہیں ہے۔ لٰہذا امام کے حافظ شریعت ہونے کے علاوہ اور کوئی صورت موجود نہیں۔ اگر امام عصمت کے درجے پر فائز نہ ہو تو اس کی باتوں کو صحیح اور  غلط میں تمیز کا پیمانہ نیز احکام  الٰہی کو دوسری چیزوں سے جدا کرنے کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ لوگ احکام الٰہی پر صحیح عمل نہیں کرسکیں گے۔۱

آیت کریمہ (لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين)۲ (عہدہ امامت ظالمین کو نہیں ملےگا) بھی عصمت امام پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ معصیت یعنی احکام الٰہی سے تجاوز کرنا، ظلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ایک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ مَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُوْلَئكَ هُمُ الظَّالِمُون)۳ "اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا، وہ ظالمین میں شمار ہوگا۔" قرآن نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:(إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم)۴ "شرک بہت بڑا ظلم ہے۔" لہذا جو بھی ظلم کرتا ہے، وہ منصب امامت کا سزاوار نہیں ہوسکتا۔ آیت کریمہ(لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين) خداوند متعال کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس درخواست کا جواب ہے، جس میں آپ ؑنے اپنی اولاد کے لئے بھی منصب امامت کو طلب کیا۔ جب خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مقام امامت سے نوازا تو ارشاد فرمایا:(إِنىّ‏ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا) میں تجھے لوگوں کا امام اور قائد بنا رہا ہوں۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس عظیم منصب کو اپنی اولاد کے لئے بھی طلب کیا، جیسا کہ آپ ؑنے فرمایا: (قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتى) "میری ذریت کے لئے بھی۔" خداوند متعال نے فرمایا: (لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين) "یہ عہدہٴامامت ظالمین کو نہیں ملے گا۔"

حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذریت کو ہم چار گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1۔ وہ افراد جو پیدائش سے لے کر آخری عمر تک کوئی گناہ انجام نہ دیں۔ ان پر ظالم کا لفظ صادق نہیں آتا۔
2۔ وہ افراد جو زندگی کے پہلے مرحلے میں گناہ انجام دیتے ہیں، لیکن اس کے بعد توبہ و استغفار کرتے ہیں اور آخری دم تک دوبارہ گناہ انجام نہیں دیتے۔
3۔ وہ افراد جو زندگی کے آخری حصے میں گناہ انجام دیتے ہیں اور توبہ و استغفار بھی نہیں کرتے۔
4۔ وہ افراد جو ہمیشہ گناہ میں غرق رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں سے آخری دو قسموں کے لئے منصب امامت طلب نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ دو گروہ منصب امامت کے لئے سزاوار ہی نہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے کہ آپؑ ایسے افراد کے لئے منصب امامت طلب کریں، جو زندگی بھر گناہوں کے مرتکب رہیں یا زندگی کے آخری حصے میں ہر قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوں۔ بنابریں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن افراد کے لئے طلب امامت کی ہے، وہ پہلے دو گروہ ہی ہوسکتے ہیں۔ خداوند متعال نے دوسرے گروہ کو بھی مستثنٰی کیا ہے، لہذا پہلا گروہ ہی باقی رہ جاتا ہے، جس کا وجود عصمت کے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ کسی غیر معصوم کا پیدائش سے مرتے دم تک جملہ گناہوں اور لغزشوں (چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، کبیرہ ہوں یا صغیرہ) کا مرتکب نہ ہونا عام حالت میں محال ہے۔۵

آیت کریمہ (أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكم)۶ (اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو) بھی اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ کسی فرد یا افراد کی بے چوں و چراں اطاعت کا واجب ہونا اس چیز کو بیان کرتا ہے کہ اولی الامر تمام  گناہوں اور لغزشوں سے پاک و منزہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اولی الامر کو رسول پر عطف کرنا اس نکتے کو بیان کرتا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا جو معیار ہے، وہ ہو بہو رسول اللہ کی اطاعت کا معیار ہے۔ بنابریں جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں، اسی طرح اولی الامر بھی معصوم ہے۔ خلاصہ یہ کہ امام کی عصمت کے بارے میں دو نکات موجود ہیں:
الف: امام کو معصوم ہونا چاہیے۔ یعنی جو بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد منصب امامت پر فائز ہو کر امت اسلامی کی رہبری کرنا چاہے، اسے معصوم ہونا چاہیے۔
ب: ائمہ اہلبیت علیہم السلام مقام عصمت پر فائز ہیں۔ بنابریں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہی افراد امت اسلامی کی امامت و رہبری کے لئے سزاوار ترین افراد ہیں اور منصب امامت کے بھی یہی لوگ زیادہ حقدار ہیں۔

2۔ علم اور دوسرے ذاتی کمالات
امام  کو احکام دینی اور مسلمانوں کے مصالح و مفاسد سے آگاہ ہونا چاہیے، تاکہ اہداف امامت حاصل ہوسکیں۔ علاوہ ازیں اسے تمام کمالات نفسانی اور فضائل اخلاقی سے آراستہ بھی ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے دوسروں کے لئے نمونہ ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: (والامام عالم لا یجهل، وراع لا ینکل، معدن القدس و الطهارة، و النسک و الزهادة، و العلم و العبادة، لامغمز فیه فی نسب و لا یدانیه ذو حسب۔۔۔ نامی العلم، کامل الحلم، مضطلع بالامامة، عالم بالسیاسة) "امام عالم ہوتا ہے اور کسی چیز سے جاہل نہیں ہوتا۔ وہ ایسا رہبر اور نگہبان ہے جس میں ضعف و سستی کا امکان نہیں۔ وہ طہارت اور پاکیزگی کا سرچشمہ اور زہد و عبادت کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کے نسب میں کھوٹ نہیں ہوتا اور شرافت نسب میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔۔ وہ کثیر علم کا مالک ہوتا ہے اور بردباری سے سرشار ہوتا ہے، وہ جامع شرائط امامت اور سیاست الٰہی کا عالم ہوتا ہے۔" ائمہ اہل بیت علیہ السلام کے علوم کے دو کلی مآخذ ہیں:الف: وہ علوم و معارف جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان تک بطور ارث منتقل ہوئے۔ یہ دو طریقوں سے ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔
1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ نقل کرنے کے ذریعے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت ساری احادیث اس طریقے سے بیان ہوئی ہیں۔ اگر انہیں جمع کیا جائے تو ایک بڑی ضخیم کتاب بن جائے گی۔ حدیث سلسلۃ الذہب (جو امام رضا علیہ السلام سے کلمہ توحید کے بارے میں روایت ہوئی ہے) اسی قسم کی احادیث کا نمونہ ہے۔۷

2۔ حضرت علی علیہ السلام کی کتاب سے روایت کی صورت میں: حضرت علی علیہ السلام  ساری زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے، جس کی بنا پر آپ ؑپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بے شمار احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ (حقیقت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی املا پر حضرت علی علیہ السلام نے تحریر کیا ہے) ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں اس کتاب کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے پاس موجود رہی۔۸ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں اس کتاب کو (جامعہ) کہا گیا ہے، کیونکہ احکام الٰہی کے بارے میں یہ ایک جامع کتاب تھی۔
ب: وہ حقائق و معارف جنہیں خداوند متعال نے انہیں الہام فرمایا ہے۔ اگرچہ وحی پیغمبر کے ساتھ ہی مختص ہے اور ختم نبوت کے ساتھ وحی کا باب بھی بند ہوگیا ہے، مگر اولیاء کے لئے غیبی و الٰہی الہام کا باب کبھی بند نہیں ہوتا۔ ائمہ اطہار علیہم السلام جو اولیاء میں سے بھی برگزیدہ تھے، وسیع پیمانے پر غیبی و الٰہی الہام کے حامل تھے۔ دینی اصطلاح میں ایسے افراد کو جو عالم غیب سے حقائق و معارف حاصل کرتے ہیں (محدث) کہتے ہیں۔ یہ نکتہ شیعہ و سنی احادیث میں موجود ہے۔ محدث وہ  ہوتا ہے، جو نبی نہ ہونے کے باوجود فرشتوں سے ہم کلام ہوت ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے :(لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء)۹"بنی اسرائیل میں کچھ افراد ایسے بھی تھے، جو نبی نہ ہونے کے باوجود فرشتوں سے ہم کلام ہوتے تھے۔" محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (محدث) کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا: (انه یسمع الصوت و لا یری الشخص) "وہ غیبی آواز کو تو سنتا ہے لیکن کسی کو دیکھتا نہیں۔" اس نے دوبارہ سوال کیا: پھر کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کلام فرشتے کا ہے؟ تب آپ ؑنے فرمایا:(انه یعطی السکینة و الوقار حتی یعلمانه کلام ملک)۱۰"اسے ایسا سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، جس سے وہ جان لیتا ہے کہ یہ ہم کلام ہونے والا فرشتہ ہے۔" ائمہ اہل بیت علیہم السلام عصمت کے درجے پر فائز تھے اور یہ لوگ راسخون فی العلم اور علم لدنی کے مالک تھے، جو قرآن کریم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے۔ یہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارث تھے اور ان کے پاس معارف نبوی کاملاً موجود  تھے۔ بعبارت دیگر یہ افراد کتاب و سنت کے ترجمان تھے۔

3۔ امام کا دوسروں سے افضل ہونا:
 عقلی لحاظ سے مفضول کو فاضل پر یا فاضل کو افضل پر مقدم کرنا قبیح ہے، نیز خداوند متعال ہر قسم کے ناپسندیدہ افعال کے بجالانے سے پاک و منزہ ہے۔ بنابرین اس حکم کے بارے میں عقل و شرع کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہے۔ لہذا امام کو تمام اچھی صفات میں (جیسے  علم، سیاست، تقویٰ و پرہیزگاری وغیرہ) جو ایک اسلامی معاشرے کی رہبری کے لئے ضروری ہیں، دوسروں سے افضل ہونا چاہیے، تاکہ امامت کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے۔ امام رضا علیہ السلام کی مذکورہ حدیث میں یہ عبارت (لایدانیه ذو حسب) (کوئی عظمت نسب میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا) انہیں صفات کی طرف اشارہ ہے۔ آپ ؑدوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: (الامام واحد دهره،لایدانیه احد،ولایعادله عالم، ولایوجد منه بدل،ولا له مثل ولا نظیر،مخصوص بالفعل کله،من غیرطلب منه ولا اکتساب)۱۱"امام اپنے زمانے میں یگانہ ہوتا ہے۔ کوئی فضل و کمال میں نہ اس کے قریب پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عالم اس کا  مدمقابل قرار پاسکتا ہے۔ نہ اس کا بدل پایا جاتا ہے، نہ کوئی اس کا مثل و نظیر ہے۔ اس کی فضیلتیں اکتسابی نہیں بلکہ خدا کی طرف سے عطا شدہ ہیں۔" خواجہ نریف الدین طوسی امام کی اس صفت اور شرط کے بارے میں لکھتے ہیں: (و قبح تقدیم المفضول معلوم ولا ترجیع مع التساوی) "مفضول کو فاضل پر مقدم کرنے کی قباحت میں کوئی شک نہیں ہے۔ اگر تمام انسان فضل و کمال کے اعتبار سے مساوی ہوں تو ان میں سے کسی کو بعنوان امام انتخاب کرنا ترجیح بلا مرجح ہے، یعنی مرجح کے بغیر کسی کو ترجیح دینا قبیح ہے، لہذا امام کو  فضائل اخلاقی و کمالات نفسانی کے لحاظ سے دوسروں سےحتماً افضل ہونا چاہیے۔"

ائمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں یہ تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ ان افراد نے کسی سے علم کسب نہیں کیا، جبکہ دوسرے لوگ ان کے علم و دانش سے بہرہ مند ہوتے تھے، یہاں تک کہ ابو حنیفہ (جسے امام اعظم کا لقب ملا ہے) جیسے افراد کہتے ہیں: (لولا السنتان لهلک النعمان)۱۲"اگر دو سال صادق آل محمد علیہ السلام کی شاگردی نہ کرتا تو نعمان ہلاک ہوا ہوتا” ایک اور مقام پر  وہ کہتے ہیں:(مارایت افقه من جعفر بن محمد)۱۳"میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ کو نہیں پایا۔" ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کی معاصر شخصیات کی تاریخ زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام علم و عمل میں اپنے زمانے میں سب سے افضل و برتر تھے۔ ان کے حضور جو بھی سوالات کئے جاتے، وہ جواب کے بغیر نہیں رہ جاتے، حالانکہ ان افراد نے کسی سے علم و دانش کسب نہیں کیا ہے۔ شیخ صدوق اس مطلب کو امامت کی روشن ترین دلیل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے کسی سے علم کسب نہیں کیا۔ یہ افراد کسی قسم کی سوالات کے سامنے عاجز نہیں ہوتے تھے۔ یہ اپنے دور میں تمام علوم و فنون کو دوسروں سے زیادہ جانتے تھے۔ بنابرین ان کی امامت کے بارے میں اس سے زیادہ واضح اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔۱۴

مذکورہ صفات و شرائط بالخصوص عصمت کو خداوند متعال کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ اسی لئے قرآن کریم نبوت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:(اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يجَعَلُ رِسَالَتَه)۱۵"اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔" بنابریں امامت کے بارے میں بھی یہی قاعدہ جاری ہوگا۔ جس طرح نبوت خداوند متعال کی طرف سے خاص رحمت ہے اور اس کی تقسیم و تعیین کا حق صرف اسی کو ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: (أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّك)۱۶(تو کیا یہی لوگ رحمت پروردگار کو تقسیم کر رہے ہیں) اسی طرح امامت بھی اس کی طرف سے خاص رحمت ہے اور اس کی تقسیم و تعیین کا حق بھی صرف پروردگار کو ہے۔ ابن ہشام نقل کرتے ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی عامر کو دین اسلام کی طرف دعوت دی، جو حج بیت اللہ کے لئے مکہ آئے ہوئے تھے۔ ان کے سردار نے کہا: اگر ہم آپ کی بیعت کریں اور خداوند متعال آپ ؐکو دشمنوں پر غالب کرے تو کیا آپؐ کے بعد ہمارے لئے بھی رہبری نصیب ہوگی؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(الامرالی الله یضعه حیث یشاء) میرے بعد رہبری کا اختیار خداوند متعال کے پاس ہے، وہ جسے چاہے یہ منصب عطا کرتا ہے۔ بنابریں امامت کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کلام، نبوت کے بارے میں موجود کلام کے ساتھ کاملاً مطابقت رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: (اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يجَعَلُ رِسَالَتَه)۱۷"اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔"

حوالہ جات:
۱۔کشف المراد، مبحث امامت، مسئلہ دوم
۲۔ بقرۃ، 124
۳۔ بقرۃ، 229
۴۔ لقمان 13
۵۔ المیزان، ج1، ص274
۶۔ نساء، 59
۷۔ توحید، شیخ صدوق، باب 1، حدیث 21، 22، 23
۸۔ المراجعات، ص327، المراجعہ، 110
۹۔ بحارالانوار، ج 26، ص18
۱۰۔ صحیح بخاری، ج2، ص 149
۱۱۔ اصول کافی، ج1، ص271، کتاب الحجۃ، باب: ان الائمۃ محدثون، حدیث 4
۱۲۔ اصول کافی، ج1 کتاب الحجۃ، باب: جامع فی فضل الامام و صفاتہ، ص 156
۱۳۔ الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ج1، ص58
۱۴۔ ایضاً، ص57
۱۵۔ کمال الدین و تمام النعمۃ، ص91، ۱۶۔ انعام، 124
۱۶۔ زخرف، 32
۱۷۔ انعام، 124
خبر کا کوڈ : 699641
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش