0
Monday 27 Nov 2017 23:10

سامراء میں آئمہ اہلبیت کی مشکلات اور منجی بشریت

سامراء میں آئمہ اہلبیت کی مشکلات اور منجی بشریت
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ برس اربعین حسینی کے سلسلے میں عراق کی زیارات کا شرف حاصل ہوا۔ نجف، کربلا، کاظمین، بلد، سامراء میں موجود اہلبیت اطہار ؑ کے مزارات پر حاضری ہوئی۔ سننے اور دیکھنے نیز محسوس کرنے میں بڑا فرق ہے۔ عمر کا ایک حصہ ان اماکن اور شہروں کے بارے باتیں سنتے، زائرین کے تاثرات لیتے گزرا تھا، تاہم جو وہاں جا کر محسوس کیا، وہ کسی نے نہ بتایا تھا۔ کہنے والوں کی زبانیں کوشش تو بہت کرتی تھیں کہ اپنے تاثرات کو بیان کرسکیں، تاہم اکثر ایسا لگا کہ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنی کیفیت کو بیان کرسکیں۔ شاید میرے لئے بھی ایسا ممکن نہ ہو کہ اپنے محسوسات کو الفاظ میں بیان کر سکوں۔ کربلا میں کیا محسوس کیا، نجف میں کیا احساسات تھے، کاظمین جا کر کیا لگا اور سامراء کس دنیا کا نام ہے، یہ فقط دیکھنے اور محسوس کرنے سے ہی جانا جا سکتا ہے۔

سامراء عراق کے صوبے صلاح الدین میں واقع ہے، شہر کے ساتھ ہی دریائے دجلہ بہتا ہے۔ شہر دجلہ کی مشرق کی جانب ہے، جس کے مشرق میں صوبے صلاح الدین کا درالخلافہ تکریت ہے، شمال میں صوبہ نینوا اور مغرب میں الانبار۔ بغداد سے سامراء کا فاصلہ تقریبا 124 کلومیٹر ہے۔ سامراء کسی دور میں عباسی حکومت کا دارالخلافہ رہا۔ اسی شہر میں عسکریین یعنی امام علی نقی بن امام محمد تقی اور امام حسن عسکری بن امام علی نقی کا مزار اقدس بھی واقع ہے۔ دریائے دجلہ کی چوڑائی کافی زیادہ ہے، جس پر اس وقت ایک طویل پل تعمیر ہے۔ بغداد سے سامراء آنے کے لئے اس پل سے ہی گزر کر زائرین شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ عباسی حکمران متوکل عباسی نے اپنے جاسوسوں کی اطلاع پر 233 ھ میں امام علی نقی علیہ السلام کو سامراء بلوایا اور محلہ عسکر میں متمکن کیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام، سید محمد اور سید جعفر بھی اپنے والد کے ہمراہ سامراء آئے۔ یقیناً اس دور میں دریائے دجلہ کو کشتی کے ذریعے ہی عبور کرنا ممکن ہوگا۔ اس شہر میں آنے جانے والے افراد پر نظر رکھنا بہت آسان ہوگا، کون کشتی کے ذریعے شہر میں داخل ہو رہا ہے، کون کشتی پر شہر سے نکل رہا ہے، اس کو کنڑول کرنا مشکل نہ تھا۔ شہر کی آبادی بھی نہایت کم تھی اور زیادہ تر حکومت کے وفادار فوجیوں پر ہی مشتمل تھی، ایسے میں تو ان احباب کو زیر نظر رکھنا اور بھی آسان تھا، اسی مقصد کے لئے ان آئمہ کو یہاں محصور کیا گیا۔

زیارت عسکریین کے لئے جاتے ہوئے میں پل کو عبور کرکے جب عسکریین کی سڑک پر چڑھا تو بے ساختہ اندر سے آواز بلند ہوئی کہ حجت دوراں کا گاﺅں آگیا، وہ گلیاں آگئیں جہاں امام وقت نے اپنا بچپن گزارا۔ دیہات میں رہنے والے افراد کو بڑی اچھی طرح معلوم ہے کہ انسان کو اپنے گاﺅں یا علاقے سے کس قدر رغبت ہوتی ہے۔ اہل بیت اطہار ؑ کو بھی مدینہ سے ایسی ہی رغبت و محبت تھی، تاہم شومی قسمت کہ امام حسین علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک کسی فرد اہل بیت کو مدینہ میں نہ رہنے دیا گیا۔ اولاد رسول ہمیشہ ہی بے وطن رہی، یہی وجہ ہے کہ آج اس نسل کے افراد دنیا کے گوش و کنار میں آباد ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظ گاﺅں آج کے عسکریین کی حالت کو دیکھ کر منہ سے نکلا، مٹی سے اٹی ہوئی بوسیدہ دیواریں اور در، کچے پکے مکانات شہر کا نہیں بلکہ گاﺅں کا منظر ہی پیش کر رہے تھے۔ کربلا، نجف، کاظمین اب عظیم الشان شہر ہیں، ہر جانب بلند و بالا عمارات ہیں، وسیع و عریض سڑکیں، چم چم کرتے تجارتی مراکز، برقی قمقموں کی قطاریں، وسیع و عریض حرم، ان کے داخلی دروازے، تاہم سامراء میں ایسا کچھ نہ تھا۔

دجلہ کا پل عبور کرتے ہی وہ گلی شروع ہو جاتی ہے، جو محلہ عسکر تک جاتی ہے، یہ گلی اگرچہ کشادہ ہے، تاہم محلہ کے قریب جا کر یہ تنگ ہو جاتی ہے۔ اس محلے میں آئمہ علیہ السلام کا اپنے پیروکاروں سے ملنا اور آزادنہ نقل و حمل جاری رکھنا یا تبلیغات کرنا نہایت مشکل تھا۔ اسی لئے اس دور میں وکلاء یا نوابین کے سلسلے کی بنیاد رکھی گئی۔ آئمہ کے نوابین کا یہ سلسلہ حجت دوراں کی غیبت کبریٰ تک جاری رہا۔ امام علی نقی علیہ السلام کے وکلاء بغداد، بصرہ، قم اور حجاز میں متعین تھے۔ ان وکلاء سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رکھا جاتا۔ امام علی نقی علیہ السلام بیس سال نو ماہ محلہ عسکر میں قیام پذیر رہے۔ امام علی نقی علیہ السلام کی محلہ عسکر میں شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام بھی اسی محلہ میں رہے۔ آپ نے 8 ربیع الاول 260 ھ میں 28 برس کی عمر میں اسی محلے میں جان جان آفرین کے سپرد کی۔ ان دونوں آئمہ کا مدفن آج اسی محلہ میں عسکریین کے نام سے معروف ہے۔ اس مزار میں ان دو آئمہ کے علاوہ امام حسن عسکری کی ہمشیرہ حکیمہ خاتون اور زوجہ نرجس خاتون کا بھی مدفن ہے، جسے 2008ء میں تکفیری دہشت گردوں نے دھماکے سے مسمار کر دیا تھا۔ اب یہ مزار دوبارہ سے تعمیر ہوچکا ہے۔

امام علی نقی علیہ السلام کی طرح امام حسن عسکری علیہ السلام کی نقل و حرکت اور روابط پر کڑی نگرانی تھی۔ ان کے پیروکار خط و کتابت کے ذریعے ان سے رابطہ رکھتے تھے، جو کسی معتمد شخص کے ہاتھ امام تک پہنچایا جاتا تھا اور اس کا جواب لیا جاتا تھا۔ تاریخ میں لکھا گیا کہ امام کے پیروکار فقیروں کا بھیس بدل کر امام تک پہنچتے اور اکثر امام اپنے پیروکاروں کو پہلے سے آگاہ کر دیتے کہ کوئی شخص مجھے سلام نہ کرے اور نہ ہی میری جانب اشارہ کرے۔ حکومت کی جانب سے ان سختیوں کی ایک وجہ سادات کے مختلف خانوادوں کی جانب سے بنو عباس کے خلاف ہونے والی بغاوتیں تھیں۔ امام حسن عسکری کی سامراء میں شہادت کے بعد ان کی اولاد کے حوالے سے مورخین کے مابین اختلاف ہوا، بعض کے نزدیک امام علیہ السلام کی متعدد اولادیں تھیں اور بعض کے نزدیک کوئی اولاد نہیں تھی، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام کے ایک فرزند تھے۔ اہل تشیع کے نزدیک امام حسن عسکری کے فرزند امام مہدی جن کا حقیقی نام ”م ح م د“ ہے ہیں۔ روایات کے مطابق والد کی شہادت کے وقت امام مہدی کی عمر پانچ سال یا چار سال تھی۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق نو ربیع الاول امام مہدی کی امامت کا پہلا روز ہے، اسی سبب اس روز کو عید زھراء بھی کہا جاتا ہے۔

امام مہدی (عج) کے حوالے سے سنی و شیعہ مکاتب فکر میں رسالت ماب کی بہت سی احادیث معروف ہیں، جیسا کہ مہدی کائنات کو یوں عدل سے بھر دے گا کہ جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔ نیز یہ کہ اگر قیامت سے پہلے ایک روز بھی باقی ہو تو میری اولاد میں سے ایک شخص ظہور کرے گا، جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اس طرح کے منجی بشریت کا تصور تمام الٰہی ادیان اور کئی قدیم اقوام میں ابتداء سے موجود ہے۔ میتریا، کالکی اوتار، منصور، سوشیانت، مسیحا، دی ٹرو مین اور ایسے ہی کئی نام دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے والے کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ قدیم متون اور پیشین گوئیوں کے تناظر میں ایسی شخصیت کا آخری زمانے میں ظہور تو حتمی ہے، اختلاف اس بات پر ہے کہ وہ کس نسل سے ہوگا اور کون ہوگا۔ ہر دین کا دعویٰ ہے کہ وہ ہم میں سے ہوگا۔ مسلمانوں کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ ہم میں سے ہوگا۔ اسی طرح مسلمان مسالک میں بھی ہر کسی کا دعویٰ ہے کہ وہ ہم میں سے آئے گا۔ تاہم میری نظر میں مہدی، میتریا، کالکی اوتار، سوشیانت، مسیحا، دی ٹرومین اللہ کا نمائندہ ہوگا اور وہ اللہ کے دین پر ہی سب کو جمع کرنے کے لئے ظہور فرمائے گا۔ وہ مسلکی رنگ کے ساتھ نہیں بلکہ ان رنگوں کو اسلام جو دین الٰہی ہے، کے رنگ میں رنگنے کے لئے ظہور کرے گا۔ خداوند کریم منجی بشریت کو اذن ظہور عطا فرمائے، تاکہ انسانیت کی مشکلات، مصیبتیں و آلام ختم ہوں اور معاشرہ ایک الٰہی معاشرے کی صورت میں اپنے اہداف کو حاصل کرے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 686261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش