0
Wednesday 19 Jul 2017 20:47

امام صادق (ع) کا مقام امام ابو حنیفہ کی زبانی

امام صادق (ع) کا مقام امام ابو حنیفہ کی زبانی
تحریر: عالیہ شمسی

امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں نہ فقط شیعہ علماء نے بہت کچھ بیان کیا ہے بلکہ اس بارے میں اہل سنت کے علماء اور بزرگان نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ مذاہب اہل سنت کے آئمہ، علماء اسلامی اور صاحب نظر و فکر افراد نے امام صادق (ع) کی علمی، عملی، اخلاقی صفات اور کرامات کے بارے بہت کچھ بیان کیا ہے۔ اس تحریر میں ہم امام ابو حنیفہ کے اقوال اور اعترافات کو ذکر کریں گے۔
ابو حنيفہ اور امام صادق (ع):
نعمان بن ثابت بن زوطی (80-150ھ.ق) کہ جو ابو حنيفہ کے نام سے بھی معروف ہیں، وہ مذہب حنفی کے امام ہیں، وہ امام صادق کے ہم عصر بھی تھے۔ انہوں نے امام صادق (ع) کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں بہت ہی اچھے اعترافات کئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں۔
ما رأيت افقه من جعفر بن محمد و انه اعلم الامۃ: "میں نے جعفر ابن محمد سے فقیہ تر اور عالم تر کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اس امت کے اعلم ترین بندے تھے۔" (شمس الدين ذهبی، سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 257۔ تاريخ الكبير، ج 2، ص 199 و 198، ح 2183)

امام صادق (ع) کے زمانے میں عباسی خلیفہ منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ وہ اولاد علی (ع) و اولاد فاطمہ (ع) اور خاص طور پر امام صادق (ع) کی عزت، عظمت اور شہرت سے ہمیشہ پریشان اور غصے کی حالت میں رہتا تھا اور اس پریشانی کے حل کے لئے وہ امام  ابو حنیفہ کو امام صادق (ع) کے مقابلے پر کھڑا ہونے کا کہا کرتا تھا۔ منصور دوانقی امام صادق (ع) کے علمی مقام اور عزت و عظمت کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لئے، ابو حنیفہ کی اس زمانے کے سب سے بڑے عالم کے عنوان سے حکومتی سطح پر عزت اور احترام کرتا تھا، تاکہ اس سے سرکاری سطح پر امام صادق (ع) کے احترام کو کم کیا جا سکے۔ اس بارے میں خود ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ: "ایک دن منصور دوانقی نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور کہا کہ: اے ابو حنیفہ لوگ جعفر ابن محمد سے بہت محبت اور اسکا بہت احترام کرتے ہیں، معاشرے میں اسکا ادب و احترام روز بروز زیادہ ہوتا جا رہا ہے، تم جعفر ابن محمد کی عزت اور احترام کو لوگوں کی نظروں میں کم کرنے کے لئے، اسطرح کرو کہ چند مشکل اور پیچیدہ علمی مسئلوں کو تیار کرو اور ایک مناسب وقت پر ان سے یہ سوالات پوچھو، تاکہ وہ ان سوالات کا جواب نہ دے سکیں اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کم ہو جائے گی اور لوگ ان سے دور ہو جائیں گے۔

ابو حنیفہ کہتا ہے کہ یہ سن کر میں نے چالیس مشکل علمی مسئلوں کو تیار کیا اور جس دن منصور حیرہ کے مقام پر تھا، اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میں اسکے پاس پہنچ گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ جعفر ابن محمد منصور کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انکی جلالت اور رعب کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا۔ اتنا رعب تو خلیفہ منصور کو دیکھ کر بھی مجھ پر طاری نہیں ہوا تھا، حالانکہ خلیفہ کو سیاسی قدرت رکھنے کی وجہ سے بارعب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے داخل ہو کر سلام کیا اور انکے ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کی، خلیفہ نے اشارے سے مجھے کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میں بھی چپ کرکے بیٹھ گیا۔ اس پر منصور عباسی نے جعفر بن محمد کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ: اے ابو عبداللہ، یہ ابو حنیفہ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا، ہاں میں اسکو جانتا ہوں۔ پھر منصور نے مجھ سے کہا کہ اے ابو حنیفہ اگر تم نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو ابو عبداللہ جعفر ابن محمد سے پوچھ لو۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے بھی اسے بہت اچھی فرصت جانا اور وہ چالیس سوال جو میں نے پہلے سے تیار کئے ہوئے تھے، ایک ایک کرکے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا۔

امام صادق ہر مسئلے کو بیان کرنے کے بعد، اسکے جواب میں فرماتے تھے کہ اس مسئلے میں تمہارا عقیدہ اس طرح ہے، مدینہ کے علماء کا عقیدہ اس طرح ہے اور ہم اہل بیت کا عقیدہ اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں امام کی نظر ہماری نظر کے مطابق تھی اور بعض مسائل میں مدینہ کے علماء کی نظر کے ساتھ موافق تھی اور کبھی امام کی نظر ہر دو نظروں کے مخالف تھی، اس صورت میں امام تیسری نظر کو انتخاب کرکے بیان کیا کرتے تھے۔ میں نے تمام چالیس مشکل سوال کہ جو انتخاب کئے ہوئے تھے، ایک ایک کرکے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا تو انہوں نے بھی بڑے آرام اور تحمل سے ان سوالات کے مجھے جوابات دیئے۔ پھر ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ: ان اعلم الناس اعلمہم باختلاف الناس۔ "بے شک اعلم ترین وہ بندہ ہے کہ جسکو علمی مسائل میں مختلف علماء کے نظریات کا علم ہو اور کیونکہ جعفر ابن محمد بالکل ایسے ہی تھے، پس وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔" (سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 258۔ بحارالانوار، ج 47، ص 217) وہ ہمیشہ امام صادق کی علمی عظمت کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ: لولا جعفر بن محمد ما علم الناس مناسك حجهم۔ "اگر جعفر ابن محمد نہ ہوتے تو لوگوں کو حج کے احکام اور اعمال کا علم نہ ہوتا۔" (شيخ صدوق، من لايحضره الفقيه، ج 2، ص 519، طبع قم)
خبر کا کوڈ : 654646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش