Sunday 1 Jan 2017 16:30
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
حلب میں کیا ہوا؟ مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑ رہا ہے، اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔ رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگر کسی نے حلب کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے۔ یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِ حلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔ جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کر رکھی ہے، اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں، وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لیکن شام میں چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی، چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔ یہ ایک پرامن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا، چنانچہ آناً فاناً دکانیں لوٹ لی گئیں، مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا، مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کر دیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارالحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔ چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔ حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیر قانونی قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ حلب تقریباً چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔ آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟ چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے، سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتو درندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔ جیسے جیسے 2017ء کا سال نزدیک آتا جا رہا تھا، امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔
اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟ جیسا کہ 8 جون 2014ء میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا، جس میں 29 افراد مارے گئے تھے، تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔ اسی طرح طالبان کی طرف سے مئی 2011ء میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012ء میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پر، نیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009ء میں جی ایچ کیو پر حملہ کرکے قبضے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنا دیا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟ اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟ اگر کوئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کی بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟ بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔ باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کر لیا تھا، شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا، اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔ یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جو لوگ شام میں قومی فوج کے خلاف ہیں اور باغیوں کے ہمدرد ہیں، وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
nazarhaffi@gmail.com
حلب میں کیا ہوا؟ مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑ رہا ہے، اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔ رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگر کسی نے حلب کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے۔ یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِ حلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔ جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کر رکھی ہے، اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں، وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لیکن شام میں چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی، چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔ یہ ایک پرامن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا، چنانچہ آناً فاناً دکانیں لوٹ لی گئیں، مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا، مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کر دیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارالحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔ چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔ حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیر قانونی قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ حلب تقریباً چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔ آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟ چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے، سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتو درندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔ جیسے جیسے 2017ء کا سال نزدیک آتا جا رہا تھا، امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔
اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟ جیسا کہ 8 جون 2014ء میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا، جس میں 29 افراد مارے گئے تھے، تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔ اسی طرح طالبان کی طرف سے مئی 2011ء میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012ء میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پر، نیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009ء میں جی ایچ کیو پر حملہ کرکے قبضے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنا دیا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟ اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟ اگر کوئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کی بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟ بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔ باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کر لیا تھا، شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا، اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔ یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جو لوگ شام میں قومی فوج کے خلاف ہیں اور باغیوں کے ہمدرد ہیں، وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 596220
فدا حسین بالہا می
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟ نہایت ہی جامع اور فکر انگیز تحریر۔ نوحہ گرانِ حلب کے لئے چشم کشا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کہاں ایسی تحریروں کو پڑھنے والے ۔۔۔۔ مگر کالم نگار نے ایسا منطقی کالم تحریر کر کے ہمیں بھی اس واجب کفائی سے ایک جانب سبکدوش کیا اور دوسری جانب و ما علینا الی البلاغ کا حق بھی ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشکور و ممنون
منتخب
18 May 2024
16 May 2024
18 May 2024
17 May 2024
18 May 2024
18 May 2024
عالی