0
Thursday 9 May 2024 10:59

صیہونی حکومت کے پینترے

صیہونی حکومت کے پینترے
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

اسرائیلی ٹینکوں نے رفح پر حملے شروع کر دیئے ہیں اور صیہونی حکومت نے بظاہر رفح-فلاڈیلفیا کی سرحدی پٹی پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائیاں جنوبی غزہ پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کی بجائے ایک  بڑی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ مشرقی رفح پر صیہونی حکومت کے حملے کے پہلے مرحلے کی منظوری نیز تحریک حماس کی طرف سے دوحہ قاہرہ کے مجوزہ منصوبے کی منظوری نے غزہ میں میدانی مساوات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران حماس کی مذاکراتی ٹیم دوحہ اور قاہرہ میں موجود تھی اور اس نے جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کی تعمیر نو کے حل تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن صیہونی فریق کی جانب سے "سرخ لکیر" پر اصرار کی وجہ سے مذاکرت میں ناکامی ہوئی۔ یوں جنگ کے خاتمے کی ضمانت کی عدم فراہمی کی وجہ سے جنگ بندی کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کی رفح کو بتدریج فتح کرنے اور رائے عامہ میں حساسیت کو ہوا دیئے بغیر قدم بہ قدم غزہ اور رفح پر مکمل قبضہ ہے۔ اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ رفح میں اسرائیل کی "محدود کارروائیوں" کا مقصد دوحہ قاہرہ مذاکرات میں اسرائیلی ٹیم کی سودے بازی کی طاقت کو بڑھانا ہے۔ گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران نیتن یاہو کی حکومت کے عہدیداروں نے بارہا قاہرہ اور حماس تحریک پر الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ مزاحمتی گروپوں نے صحرائے سینا سے غزہ پٹی میں ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے سینکڑوں سرنگوں کا استعمال کیا ہے۔ مصری حکام کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کیے جانے کے باوجود نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہاء پسند ارکان اس علاقے پر مکمل قبضہ کرکے سرحدی علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس مہم میں تنازعات کا سب سے اہم محور چودہ کلومیٹر لمبا فلاڈیلفیا کا علاقہ ہے۔ اس سے قبل عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے عہدیداروں نے تل ابیب میں اپنے ہم منصبوں کو بارہا خبردار کیا تھا کہ رفح میں فوجی آپریشن شروع کرنے اور صحرائے سینا کی طرف مکینوں کی جبری نقل مکانی کا مطلب ہے کہ اسرائیل مصر کی "سرخ لکیریں" عبور کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ رفح کے مشرق میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے، قاہرہ کے حکام نے تل ابیب کی طرف سے قاہرہ کی سرخ لکیر کو عبور کرنے کے باوجود کوئی تبصرہ نہیں کیا اور زبانی کلامی اس آپریشن کی مذمت پر قناعت کرنے کو ترجیح دی۔ یہی وجہ سے کہ سائبر اسپیس میں قاہرہ کے خلاف بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آرہا ہے۔ کچھ لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ "رفح کراسنگ میں اسرائیل کے داخلے سے مصر کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اس پر قاہرہ کا ردعمل کیا ہے؟"

صیہونی حکومت کا رفح کے مشرق میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا سب سے اہم جواز اس علاقے میں حماس کی فوجی بٹالین کی موجودگی ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے چند گھنٹے بعد ہی صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ نے تین شرائط کا اعلان کیا تھا۔
1۔ "حماس کے تمام فوجی-سیاسی ڈھانچے کی تباہی"
2۔ "اسیروں کی آزادی" اور
3۔ "غزہ میں جغرافیائی سیاسی تبدیلی۔"
گذشتہ 215 دنوں کے دوران غزہ بھر میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کا بنیادی ایجنڈا مندرجہ بالا اہداف کا حصول رہا ہے۔ صیہونی حکومت کی فوج کو امید ہے کہ وہ رفح کے مشرق میں گھس کر قیدیوں کی رہائی کے لیے سنجیدہ قدم اٹھائے گی اور حماس کے پاس موجود قیدیوں کا پتہ لگانے کے علاوہ سرنگوں کا سراغ لگا کر مزید کامیابیاں حاصل کرے گی۔ اس کے علاوہ، صیہونیوں کو امید ہے کہ وہ حماس کے فیلڈ انٹیلی جنس لیڈروں محمد ضیف اور یحییٰ سنوار کو بھی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔

منگل 7 مئی کی صبح اسرائیلی فوج کی 401 ویں آرمرڈ بریگیڈ مشرقی رفح کے علاقے میں داخل ہوئی۔ یہ کراسنگ فلسطین-مصر سرحد سے تقریباً 3 کلومیٹر (1.8 میل) کے فاصلے پر واقع ہے اور فلاڈیلفیا تک پھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ اس سرحدی علاقے پر اسرائیل کا قبضہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے، تاہم نیتن یاہو کی کابینہ کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی تل ابیب اور قاہرہ کے درمیان ہم آہنگی سے ہوئی ہے اور اسرائیلی فوج کے دستے اس علاقے میں کارروائی کے بعد اس علاقے سے نکل جائیں گے۔ ’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کے مطابق اسرائیلی فوج کے حکام نے اعلان کیا کہ حماس سے وابستہ سو سے زائد مراکز کو نشانہ بنایا گیا، تین سرنگیں دریافت ہوئیں اور بیس فلسطینی مجاہدین شہید ہوئے۔ فلسطینی ذرائع نے مشرقی رفح میں ستائیس افراد بالخصوص آٹھ بچوں کی شہادت کی بھی خبر دی ہے۔

رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے ایران، ترکی اور قطر کے رہنماؤں کے ساتھ ایک فون کال میں غزہ میں جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مشرقی رفح پر صیہونی حکومت کے حملے کے عین وقت حماس کے اس اقدام کی وجہ سے اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ارکان کو اندرونی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ گذشتہ دن اور رات کے دوران اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ اور ثالثی کرنے والے کرداروں کی جانب سے دباؤ کی سطح اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تل ابیب قاہرہ میں ایک تکنیکی وفد بھیجنے پر مجبور ہے۔

بعض عبرانی ذرائع کا خیال ہے کہ امریکہ اور عرب ممالک کو فلسطینی فریق کی ترمیم شدہ پیشکش کو قبول کرنے کے امکان کے بارے میں علم تھا، لیکن انہوں نے یہ مسئلہ تل ابیب کے ساتھ شیئر نہیں کیا اور بظاہر اسرائیلی حکام حماس کو کی گئی پیشکش میں ترمیم سے آگاہ نہیں تھے۔ یہ نئی تجویز فلسطینی فریق کو مذاکرات کے آخری ہفتے میں پیش کی گئی تھی اور اس سے قبل اس پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ مصر کے اس اقدام میں قاہرہ کو مزاحمت اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی کے ضامن کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحریک حماس نے مصر کی تجویز پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس معاملے کے میڈیا کو بتائے جانے کے بعد اسرائیلی فریق نے اعلان کیا کہ مصر کا مجوزہ منصوبہ تل ابیب کے مطالبات پر پورا نہیں اترتا اور اس کے بعد صیہونی فوج نے رفح کے مشرق میں اپنی کارروائیاں شروع کر دیں۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ امریکی نمائندے ولیم برنز ان مذاکرات میں موجود تھے اور امریکی ٹیم اس نئی تجویز کی تفصیلات سے واقف تھی، لیکن امریکی ٹیم نے اس کی تفصیلات سے اسرائیلی فریق کو آگاہ نہیں کیا۔

نتیجہ
اگرچہ اسرائیلی ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں نے رفح کے مشرق میں حملہ شروع کر دیا تھا اور بظاہر رفح-فلاڈیلفیا کی سرحدی پٹی پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائیاں دوحہ مذاکرات میں اسرائیلی فریق کی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں۔ جنوبی غزہ پر مکمل قبضہ قاہرہ۔ فلاڈیلفیا کے محور میں داخل ہونے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے اسرائیلی بکتر بند جہازوں کی تصاویر کے سامنے آنے کے چند گھنٹے بعد ہی، عبرانی ذرائع نے اعلان کیا کہ صیہونی حکومت نے رفح میں محدود کارروائیاں کی ہیں اور فی الحال اس خطے پر کسی بڑے حملے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکام فلسطینیوں پر اپنی شرائط مسلط کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب ایک نیا نفسیاتی آپریشن شروع کرنے اور غزہ کی پٹی میں تحریک حماس کی فیلڈ پوزیشن کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، تاکہ مذاکرات کی میز پر حماس اور دیگر شرکاء سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 1133953
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش