0
Wednesday 8 May 2024 19:58

جمعیت علماء ہند نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کو عرضداشت پیش کی

جمعیت علماء ہند نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کو عرضداشت پیش کی
اسلام ٹائمز۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 11ویں کلاس کے داخلہ جاتی امتحان کے نصاب سے انڈو اسلامک حصہ سے اسلامک حصہ کو حذف کرنے کے معاملہ کو لیکر آج جمعیت علماء ہند کے ذمہ داران نے وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر نعیمہ خاتون کے نام ایک عرضداشت صدر شعبہ اسلامک اسٹڈی پروفیسر عبدالحامد فاضلی کو پیش کی جس میں مذکورہ تبدیلی پر از سرِ نو غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ مذکورہ معاملہ کو لیکر مذہبی و ملی تنظیمیں کافی فکرمند ہیں وہیں دوسری جانب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے مذکورہ عمل کے تعلق سے جو وضاحت پیش کی تھی اس پر ہی اب سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ تبدیلی کے لئے باقاعدہ کچھ اساتذہ کے مشورے آئے تھے جس کے بعد ایک کمیٹی بنائی گئی اور کمیٹی کی سفارشات پر اکیڈمک کونسل کی میٹنگ میں فیصلہ لیتے ہوئے اس تبدیلی پر مہر لگائی گئی جبکہ شعبہ اسلامک اسٹڈی کے چیئرمین جو خود اکیڈمک کونسل کے رکن بھی ہیں ان سبھی عمل سے عدم واقفیت کا اظہار کیا ہے۔

آج جہاں جمعیت علماء ہند کے ذمہ داران نے ایک عرضداشت شعبہ اسلامک اسٹڈی میں دی وہیں کچھ شہر کے ذمہ داران اور سابق کورٹ ممبر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے وائس چانسلر سے ملاقات کرکے انہیں عرضداشت دینا چاہا لیکن انہیں بغیر عرضداشت لئے واپس خالی ہاتھ لوٹا دیا گیا جس پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جمعیت علماء علی گڑھ کی جانب سے دی گئی عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ تبدیلی کافی حیران کن ہے، اور یہ تاثر عام ہے کہ انتظامیہ کہیں نہ کہیں دوسروں کے اشارے پریہ کام کررہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کوور کرنے کے لئے سرسید اور ان کے رفقہ نے اس خواب کے ساتھ کیا تھا کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سائنس اور سر پر کلمہ توحید کا تاج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سر سید نے جدید تعلیم کے ساتھ ہی اسلامیات کو بھی نصاب میں شامل کیا تھا۔

انتظامیہ کا یہ قدم سرسید اور ان کے رفقہ کی روح ٹھیس پہنچا کر ان کے مشن کو کمزور کرنے یا پھر ختم کرنے کی مذموم کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔ عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی آئین نے مذہبی، لسانی، انسانی، ثقافتی اقلیتی طبقات کو اپنی تہذیب، تمدن زبان وغیرہ کی حفاظت کا بنیادی حق دیا ہے، اپنے اس حق کے تحت یہ طبقات استفادہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بقاء کی اڑائی سپریم کورٹ میں بھی لڑی گئی، جسکا فیصلہ عدالت نے محفوظ کر لیا ہے، جلدی فیصلہ آنے کی امید ہے مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام سے یونیورسٹی کا اقلیتی ادارہ ہونے کا معنی کمزور ہوتا ہے۔ ایک جانب کی یونیورسٹی انتظامیہ عدالت میں چارہ جوئی کر رہی ہے وہیں دوسری جانب نصاب سے اسلامیات کو حذف کر رہی ہے۔ جس سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامی کے دعویٰ اور عقیدے کا تضاد نمایاں ہورہا ہے اور ملت کے تئیں اسکار و یہ مشکوک ثابت ہورہا ہے۔ ایسے میں مسلم یونیورسٹی انتظامیہ ملت کے تئیں اپنی اخلاقی سماجی ملی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1133685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش