QR CodeQR Code

ایک ادبی تقریب کا احوال

28 Jun 2024 10:37

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر راشد نقوی نے افتخار عارف کی شاعری میں کربلا کے استعارہ پر مفصل گفتگو کی اور افتخار عارف کے کئی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے افتخار عارف کے شعری فن کو اردو شاعری کا منفرد سرمایہ قرار دیا۔ انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے افتخار عارف کے ان اشعار کو لازوال قرار دیا۔
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے،
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے،
فرات وقت رواں دیکھ سوئے مقتل دیکھ،
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے۔


رپورٹ: محمد انیس عباس

تہران میں ایکو Economic Cooperation Organization کے ادارہ ثقافت میں افتخار ادب اور ایکو ادارہ ثقافت کے سابق صدر محترم افتخار عارف کے فن اور شخصیت کے حوالے سے  ایک تقریب منعقد ہوئی۔ نشست میں معروف شاعر، افتخار عارف کے فن و شخصیت پر ایکو کے ڈائریکٹر سعد خان، ڈاکٹر راشد عباس نقوی، ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرثی، ڈاکٹر وفا یزدان منش، ڈاکٹر حسن رضا نقوی نے گفتگو کی جبکہ ایرانی و پاکستانی اسٹوڈنٹس نے افتخار عارف صاحب کے شعر بھی پڑھ کر سنائے۔ ایران میں پاکستانی معروف شاعر احمد شہریار نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ڈاکٹر سعد نے افتخار عارف کو پاکستان کی شناخت قرار دیا۔

ڈاکٹر راشد نقوی نے افتخار عارف کی شاعری میں کربلا کے استعارہ پر مفصل گفتگو کی اور افتخار عارف کے کئی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے افتخار عارف کے شعری فن کو اردو شاعری کا منفرد سرمایہ قرار دیا۔ انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے افتخار عارف کے ان اشعار کو لازوال قرار دیا۔
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے
فرات وقت رواں دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے

اس تقریب میں ڈاکٹر علی بیات نے افتخار عارف کے چند شعر سنائے، جو انہوں نے اردو سے فارسی میں ترجمہ کئے۔ ڈاکٹر حسن رضا نقوی نے افتخار عارف کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی یہ مشہور نظم سنائی۔

خوں بہا
اپنے شہسواروں کو
قتل کرنے والوں سے
خوں بہا طلب کرنا
وارثوں پہ واجب تھا
قاتلوں پہ واجب تھا
خوں بہا ادا کرنا
واجبات کی تکمیل
منصفوں پہ واجب تھی
(منصفوں کی نگرانی
قدسیوں پہ واجب تھی)
وقت کی عدالت میں
ایک سمت مسند تھی
ایک سمت خنجر تھا
تاج زرنگار اک سمت
ایک سمت لشکر تھا
اک طرف تھی مجبوری
اک طرف مقدر تھا
طائفے پکار اٹھے
تاج و تخت زندہ باد"
"ساز و رخت زندہ باد

خلق ہم سے کہتی ہے
سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشم نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں

پروگرام کے آخر میں پروگرام کی آرگنائزر اور نظامت کا فریضہ ادا کرنے والی محترمہ پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش نے اپنی محققانہ گفتگو میں افتخار عارف کی شاعری اور فن پر روشنی ڈالی اور انہیں ہر نسل اور عمر کا پسندیدہ اور ہردلعزیز شاعر قرار دیا۔معروف شاعرہ، افسانہ نگار اور نقاد ڈاکٹر وفا یزدان منش کا کہنا تھا افتخار عارف کی شاعری میں ہجر و وصال کے ساتھ اپنی مٹی سے دوری اور دربدری کا کرب قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں، اس کو گھر کر دے

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ اک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

تہران یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ ڈاکٹر وفا یزدان منش نے آخر میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں ایکو ادارہ کی طرف سے مہمانوں کی پاکستانی پیسٹیز اور نمک پاروں سے پذیرائی کی گئی۔
تقریب کی چند تصویری جھلکیاں















خبر کا کوڈ: 1144380

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1144380/ایک-ادبی-تقریب-کا-احوال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org