QR CodeQR Code

غدیر خم کا اعلان

25 Jun 2024 04:33

اسلام ٹائمز: اے حاجیوں سب سنو اور غور سے سنو کہ جس جس نے مجھے تسلیم کیا اور جسکا میں سردار ہوں، آج سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام بھی اسکے سردار و آقا ہیں۔ جیسے مجھے مانا ہے، ویسے ہی علی کو مانو۔ جیسے مجھے تسلیم کیا ہے، ویسے ہی علی کو تسلیم کرو۔ جیسے میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں، ویسے ہی آج سے علی بھی تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ بس میرے بعد اسکی اطاعت کرو۔ غدیر خم کا اصل پیغام یہی ہے کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پہ علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام حاکم ہیں اور ہمیں رسول گرامی اسلام کے قول کے مطابق انکی حاکمیت کو قبول کرنا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر سید دانش علی نقوی

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا آخری حج 10 ہجری میں ادا کیا کہ جسے تاریخ میں حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا گیا۔ آپ کی زندگی کا یہ حج باقی تمام کی نسبت قدر مختلف اس لیے تھا، کیونکہ اس حج سے واپسی پر جب آپ کا گزر میدان غدیر سے ہوا تو حکم خدا یعنی "یا ایہا الرسول بلغ ما انزل ۔۔۔۔۔۔" آپ نے ایک الہیٰ پیغام کے ابلاغ کے لیے وہیں شدید گرمی میں پڑاؤ ڈالا اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جو آگے نکل گئے ہیں، انہیں واپس بلاؤ اور جو ابھی یہاں نہیں پہنچے، ان کا انتظار کیا۔ جیسے ہی سارے میدان میں جمع ہوگئے تو آپ نے اونٹوں کے پلانوں سے ایک بلند ممبر تیار کیا اور سب کے سامنے ایک اعلان فرمایا اور کہا "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ" یہ اعلان تو سب نے سنا، مگر غور و فکر کسی نے نہ کیا یا پھر جان بوجھ کر اس کو فراموش کر دیا یا پھر اس کے معنی کو توڑ موڑ کر پیش کرنے لگے۔

قابل غور پہلو تو یہ ہے کہ وہ رسول کہ جس نے اس ناخواندہ و ان پڑھ معاشرے کو رہنے کے اداب سکھائے، وہ لوگ کہ جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے، انہیں بیٹیوں کی اہمیت بتائی اور پستی میں ڈوبے ہوئے اس معاشرے کو عزت و کمال کی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ ان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے مراتب پر فائز کیا اور 23 سال کے عرصے میں رسالت الہیٰ کی ذمہ داری کو بطور احسن انجام دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول گرامی اسلام نے اپنے بعد ہدایت کے سلسلے کو ایسے ہی چھوڑ دیا یا پھر اپنی زندگی میں ہی کسی کو مشخص کیا کہ آپ کے بعد ہدایت کے سلسلے کا وارث وہ ہوگا۔ بس اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں سیرت رسول گرامی اسلام اور تاریخ اسلام کا دقیق مطالعہ کرنا پڑے گا۔

اگر سیرت رسول اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول گرامی اسلام نے اپنے بعد اپنے جانشین کا ایک بار نہیں بلکہ بہت بار اعلان فرمایا، جن میں سے ایک مقام دعوت ذلعشیرہ ہے کہ جس پر آپ نے فرمایا کہ بے شک میرا یہ بھائی علی میرا وصی، میرا جانشین اور میرا خلیفہ ہے اور ایک جگہ پہ ارشاد فرمایا: اے علی آپ کی نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے، جیسے ہارون کی نسبت موسیٰ کے ساتھ تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں اس سوال کا جواب بالکل واضح اور روشن ہے کہ رسول خدا نے اپنے بعد اپنے جانشین کا  انتخاب کیا اور اس امر کو سب پر واضح کیا۔ غدیر خم کا اعلان تو درحقیقت ایک یاد دہانی تھا کہ کہیں بھول نہ جانا، کہیں عہد و پیمان کو توڑ نہ دینا اور کہا "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔"

اے حاجیوں سب سنو اور غور سے سنو کہ جس جس نے مجھے تسلیم کیا اور جس کا میں سردار ہوں، آج سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام بھی اس کے سردار و آقا ہیں۔ جیسے مجھے مانا ہے، ویسے ہی علی کو مانو۔ جیسے مجھے تسلیم کیا ہے، ویسے ہی علی کو تسلیم کرو۔ جیسے میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں، ویسے ہی آج سے علی بھی تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ بس میرے بعد اس کی اطاعت کرو۔ غدیر خم کا اصل پیغام یہی ہے کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پہ علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام حاکم ہیں اور ہمیں رسول گرامی اسلام کے قول کے مطابق ان کی حاکمیت کو قبول کرنا ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ حق حاکمیت قبول کرنا تو دور کی بات لوگوں نے سرے سے ہی اس پیغام کو بھلا دیا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے حضرت یعقوب کے ساتھ عہد و پیماں باندھنے کے باوجود حضرت یوسف کو کنویں میں پھینک دیا۔ بالکل اسی طرح اس امت نے غدیر خم کے اس پیغام کو سننے کے باوجود علی ابن ابی طالب کی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔


خبر کا کوڈ: 1143634

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1143634/غدیر-خم-کا-اعلان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org