0
Wednesday 8 May 2024 21:18

بھارتی پارلیمانی انتخابات میں مسلمان حاشیے پر

بھارتی پارلیمانی انتخابات میں مسلمان حاشیے پر
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

آبادی کے برابر حصہ داری کے نعروں کے درمیان بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کو دیئے گئے ٹکٹ نے ’’سب کا ساتھ، سب کی ترقی‘‘ اور سیکولر پارٹیوں کے ہتھکنڈوں، کردار و چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں پہلی بار مسلمانوں کو پارلیمانی انتخابات میں بڑی پارٹیوں اور ان کے اتحادیوں نے سب سے کم ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 2 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ ان میں سے ایک ٹکٹ پارٹی کی طرف سے کیرالہ میں دیا گیا ہے، جہاں اس کے پاس مضبوط حمایتی بنیاد نہیں ہے۔ اس بار کانگریس بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کانگریس پارٹی نے جھارکھنڈ اور گجرات سمیت 10 بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلم امیدوار کو کھڑا نہیں کیا ہے۔ کانگریس نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دیے ہیں، لیکن یہاں بھی سہ رخی مقابلے کی وجہ سے مسلم امیدواروں کے لئے جیتنا آسان نہیں ہے۔ یعنی کورم پورا کرنے کے لئے پارٹی نے کمزور سیٹوں پر مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے۔

پیو ریسرچ کے مطابق 2020ء میں بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے۔ اگر آبادی کے حساب سے حصہ دیکھا جائے تو پارلیمانی میں 82 کے قریب مسلم ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئیں۔ اس وقت 131 نشستیں 25 فیصد دلتوں اور قبائلیوں کے لئے مخصوص ہیں۔ یہ ریزرویشن سیاسی انصاف کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ سیاسی انصاف کا تذکرہ آئین کے اصل دیباچے میں ہے۔ اگر ہم گزشتہ 4 انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ صرف 30 کے قریب ہے۔ 2004ء میں 34 مسلم ممبر جیتے تھے۔ 2009ء میں یہ تعداد 30 تھی۔ 2014ء میں 22 مسلمان اور 2019ء میں 27 مسلمان جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔ تاہم اس بار ٹکٹوں کی تقسیم میں ہی کھیل دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلی بار کانگریس اور بی جے پی نے مسلمانوں کو سب سے کم ٹکٹ دیئے ہیں۔

پارلیمانی انتخابات 2024ء کے حوالے سے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے اور کانگریس کی قیادت والی انڈیا الائنس کے تمام امیدوار میدان میں سرگرم ہیں۔ ایسے میں آئیے جانتے ہیں کہ کس اتحاد نے مسلمانوں کو کتنے ٹکٹ دیے۔ حکمران این ڈی اے میں 40 سے زیادہ جماعتیں شامل ہیں، لیکن اتحاد نے صرف 5 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ جے ڈی یو، جو بہار میں این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہے، نے ماسٹر مجاہد عالم کو کشن گنج سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیرالہ کی ملاپورم سیٹ سے ایم عبدالسلام کو ٹکٹ دیا ہے۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں سومترا خان کو بھی اپنا امیدوار بنایا ہے۔

این ڈی اے نے آسام کی دھوبری سیٹ پر بھی مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ زبیر اسلام کو آسام گنا پریشد کی جانب سے یہاں الیکشن لڑنے کے لئے اتارا گیا ہے۔ اجیت پوار کی پارٹی این سی پی نے لکشدیپ سیٹ سے یوسف ٹی پی کو میدان میں اتارا ہے۔ این ڈی اے اتحاد نے اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، گجرات، اتراکھنڈ، ہریانہ، ہماچل، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، کرناٹک، تلنگانہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش جیسی بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ آبادی کی بات کریں تو آسام میں 34 فیصد، مغربی بنگال میں 27، اترپردیش میں 19، بہار میں 17، جھارکھنڈ میں 15، دہلی میں 13 اور مہاراشٹر میں 12 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔

انڈیا الائنس میں بھی مسلمانوں کو حصہ نہیں ملا:
مسلمانوں کو اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے این ڈی اے سے زیادہ ٹکٹ دیے ہیں، لیکن انہیں یہاں بھی عددی حصہ نہیں ملا ہے۔ انڈیا الائنس نے دہلی، جھارکھنڈ، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹر جیسی بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ انڈیا الائنس نے اترپردیش میں مسلمانوں کو 6، بہار میں 4، آسام میں 2 اور کرناٹک اور لکشدیپ میں ایک ایک ٹکٹ دیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی جماعتیں کیرالہ، بنگال اور جموں و کشمیر میں دوستانہ لڑائی لڑ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کیرالہ میں کانگریس اور سی پی ایم انڈیا اتحاد سے الگ الگ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول اور کانگریس-سی پی ایم الگ الگ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں ایک طرف پی ڈی پی ہے اور دوسری طرف کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا اتحاد ہے۔

بھارت کی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے کیوں گریز کر رہی ہیں:
2004ء میں 34 مسلمان انتخاب جیت کر پارلیمنٹ پہنچے، جب کہ 2009ء میں یہ تعداد 30 تھی، لیکن 10 سالوں میں اس تعداد میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ 2004ء میں این ڈی اے اتحاد نے تقریباً 20 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا۔ یو پی اے کی طرف سے 50 امیدواروں کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس الیکشن میں اکیلے کانگریس نے 33 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ 2009ء میں این ڈی اے نے تقریباً 10 ٹکٹ دیئے تھے اور یو پی اے اتحاد نے 50 ٹکٹ مسلمانوں کو دیے تھے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے کیوں گریز کرنے لگی ہیں۔ بھارت کے سینیئر صحافی قربان علی کے مطابق پولرائزیشن کی سیاست اس کی بڑی وجہ ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی ترقی بی جے پی کے ایجنڈے میں نہیں ہے اور اپوزیشن ہار کے خوف سے ٹکٹ نہیں دیتی ہے۔ قربان علی مزید کہتے ہیں کہ اسی وقت ملے گا جب سیکولر پارٹیاں پولرائزیشن کی سیاست کو شکست دینے کے لئے مضبوطی سے آگے آئیں اب اس سے پوچھا جائے کہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ کیوں نہیں دینا چاہتی۔

قوم پرستی نہیں تو پولرائزیشن ہی سہی:
بی جے پی کے کئی مقامی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس بار چونکہ زمین پر قوم پرستی یعنی راشٹرواد کی لہر نہیں ہے، اس لئے جیت حاصل کرنا مشکل ہوسکتی ہے۔ صرف ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنا مشکل لگتا ہے۔ دراصل 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کے دوران پاکستان پر ایئر اسٹرائیک کے دعوے نے بی جے پی کے حق میں ماحول بنایا تھا، اس بار ایسا کوئی مدعا زمین پر سرگرم نظر نہیں آتا۔ ایسے میں بی جے پی اب ایسے مدعوں کو تلاش کر رہی ہے جس کی بنیاد پر سماج میں بڑے پیمانے پر پولرائزیشن ہوسکے۔ اب ’منگل سوتر‘ بیان کے ذریعے ہندو خواتین کو کانگریس کے خلاف ڈرایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جب مودی یہ کہتے ہیں کہ آپ کی جائیداد اقلیتوں میں بانٹ دی جائے گی تو اس کے ذریعے ہندو برادری میں غصہ پیدا کرنے کی کوشش صاف نظر آرہی ہے۔ اس دوران آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے کہا کہ مہاراشٹر میں سبھی پارٹیاں پارلیمانی الیکشن میں مسلم ووٹ چاہتی ہیں، لیکن مسلم طبقے سے امیدوار نہیں اتارتی ہیں۔ اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے ووٹ مانگ رہی ہیں، لیکن انہیں مہاراشٹر کی 48 سیٹوں میں سے کسی بھی سیٹ کے لئے اس طبقے سے امیدوار نہیں مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کی سیاست پہلے ’مسلم اور ہندو‘ پر تھی، اب وہ مسجد اور نماز کی بات کررہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1129531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش