0
Tuesday 24 Jan 2023 21:47

مکتب تشیع کو "298 اے" سے کیا مسئلہ ہے؟

مکتب تشیع کو "298 اے" سے کیا مسئلہ ہے؟
تحریر: سید اسد عباس

ابھی 298 اے ترمیمی بل 2020ء کو قومی اسمبلی سے پاس ہوئے چند روز نہیں بیتے تھے کہ یورپ کے ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر قرآن کریم کی بے حرمتی کا آغاز ہوگیا۔ سویڈن، ہالینڈ، فرانس میں موجود شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن کا تذکرہ بھی درست نہیں ہے۔ یورپ میں موجود شدت پسند گروہ یورپ میں اس وقت بڑھتی ہوئی مسلم آبادی سے خوفزدہ ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی اس بڑھوتری کو نہ روکا گیا تو اگلے کچھ ہی برسوں میں مسلمانوں کے عوامی نمائندے یورپی عوامی نمائندوں سے تجاوز کر جائیں گے اور بغیر تلوار چلائے مسلمان یورپی ممالک پر حاکم بن جائیں گے۔

 پس یورپ میں مسلم آبادی کی پیشرفت کو روکنے، ان کی تبلیغ کے اثرات کو کم کرنے، نوجوانوں کو اسلام سے متنفر کرنے کے لیے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں، جس میں میڈیا، سوشل میڈیا کمپین، نمائشی توہین آمیز اقدامات شامل ہیں۔ ان سب اقدامات کو آٓزادی اظہار کے نام پر انجام دیا جاتا ہے اور حکومتیں کہتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ہم ان اقدامات کے حامی ہوں، لیکن قانون کے آگے ہم بے بس ہیں۔ ہمارا قانون آزادی اظہار سے نہیں روکتا۔ یورپ میں آزادی اظہار کے نام پر ہونے والے توہین کے ان اقدامات کے خلاف اس وقت تک ترکیہ، عراق، یمن میں عوامی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ایران نے پارلیمانی اور حکومتی سطح پر یورپ میں ہونے والی اس حرکت پر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے، تاہم پاکستان میں فی الحال لوگوں کو اس بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہے۔

ایسے واقعات میں انسان کا دل چاہتا ہے کہ اگر یورپ میں ہونے والے توہین کے واقعے کے بارے میں پاکستانیوں کو علم نہیں ہے یا ان کی اس جانب توجہ نہیں ہے تو انھیں متوجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواہ مخواہ مزید مسلمانوں کے دل آزاری ہوگی، تاہم اطلاع جلد یا بدیر عوام تک پہنچ ہی جانی ہے۔ اسی دوران میں میرے ذہن میں خیال آیا کہ چونکہ پاکستان میں تو آرٹیکل 298 اے میں مطلوبہ ترمیم جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی علامہ عبد الاکبر چترالوی صاحب کی کوششوں سے منظور ہوگئی ہے، لہذا اب قبلہ چترالوی صاحب کو ایک تعزیراتی ترمیم بنوا کر اقوام متحدہ بھی بھیجنا چاہیئے، تاکہ چپکے سے توہین مذہب کے عنوان سے ایک ترمیم عالمی سطح پر بھی پاس ہو جائے، تاکہ یہ افتخار بھی جماعت اسلامی کے حصے میں آجائے کہ اس نے عالمی سطح پر بھی توہین مذہب کے خلاف قانون سازی کروانے میں اہم کردار ادا کر دیا ہے۔

298 اے میں ترمیم تعزیرات پاکستان میں شامل کروانا جماعت اسلامی کا اہم کارنامہ ہے۔ اہل سنت مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے احباب یقیناً جماعت اسلامی کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کر رہے ہوں گے، چونکہ سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد 298 اے کی ترمیم کا قومی اسمبلی سے پاس ہونا ایک سنی جماعت کے لیے ورلڈ کپ جیتنے سے کم نہیں ہے۔ اہل سنت برادران کو ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی بھی ان کے عقیدہ کے خلاف بات نہیں کرسکے گا۔ کسی بھی مکتب کا کوئی بھی فرد جو ان کے عقیدے اور اعتقاد کے خلاف بات کرے گا، وہ دفعہ 298 اے کی زد پر ہوگا۔ لہذا یہ قانونی ترمیم پاس ہونے کے بعد اب وطن عزیز میں سنیت کا دور دورہ ہوگیا ہے۔ ملک کے شیعہ شہریوں کو اس قانون سے کیا مسئلہ ہے، آئیں سمجھنے کی کوشش کریں۔

اوائل اسلام کی کسی بھی مذہبی شخصیت بالخصوص وہ شخصیات جن کا رسالت مابﷺ سے کسی بھی طرح کا کوئی رشتہ یا تعلق رہا ہے، ان کے بارے ایسی بات کرنا، لکھنا یا اشارے کے ذریعے ایسا عمل کرنا جو اس شخصیت کے شایان شان نہ ہو یا اس سے ان کی بے توقیری کا تاثر ابھرے۔ اس کی نہ تو کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ شیعہ مسلک کے پیروکار By Default نبی کریمﷺ کی قرابت کے حوالے سے ایک کلیہ پر کاربند ہیں۔شیعہ مکتب کے نزدیک ہر وہ شخص جو تاریخی طور پر رسالت مابﷺ سے کسی بھی تعلق اور رشتے کا دعویٰ رکھتا تھا، اس کے اس دعویٰ کی کسوٹی رحلت پیغمبر اکرمﷺ کے بعد اس کا اہل بیت نبوتﷺ سے رویہ اور برتاؤ ہے، جسے کتب تاریخ اور احادیث میں نقل کیا گیا ہے۔ اگر رسالت مابﷺ کی رحلت کے بعد اہل بیت علیھم السلام سے رویہ دوستانہ اور محبت پر مبنی تھا تو شیعہ کے نزدیک وہ ہستی لائق احترام و تعظیم ہے، خواہ وہ نسلاً کوئی حبشی غلام ہو یا غریب ترین عرب و عجم باشندہ۔

تاہم اگر کسی بھی ہستی کا اہل بیت نبوتﷺ سے تاریخ میں مذکور رویہ زیادہ مثالی نہ ہو تو زیادہ تر شیعہ ایسے شخص کے بارے میں اس رویئے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، جو اہل بیت رسالتﷺ کی روایات سے ثابت ہے۔ جو بہرحال کسی بھی صورت توہین آمیز رویہ نہیں ہے۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ شیعہ اہل بیت اطہارﷺ سے محبت بھی رسول اکرمﷺ کے حکم کے ذیل میں ہی کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے جو اجر رسالتﷺ مانگا ہے، شیعہ اپنے اس رویئے کے ذریعے  وہی اجر رسالتﷺ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی معروف حدیث ثقلین کو ہی مدنظر رکھ کر شیعہ نے صحابیت کی کسوٹی مرتب کی ہے۔ اہل اسلام میں مختلف مکاتب فکر ہیں، یقیناً ان کو شیعہ کی اس کسوٹی سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ان کی نظر میں صحابیت کا معیار کچھ اور ہوسکتا ہے، وہ اس امر کے قائل ہوسکتے ہیں کہ سب صحابی جنتی ہیں، سب صحابی عادل ہیں۔

کسی کو کوئی بھی عقیدہ رکھنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ یہ قرآن و سنت کے منافی ہے کہ کسی پر اس کی مرضی کے خلاف ایک عقیدہ مسلط کر دیا جائے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ "دین میں کوئی جبر نہیں۔" اسلام تو غیر مسلموں پر بھی زبردستی دین مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن 298 اے کہتا ہے کہ علامہ چترالوی صاحب جس عمل کو توہین سمجھیں، پورا پاکستان نہ صرف اسی کو توہین سمجھے بلکہ اب اس توہین کرنے والے کو عمر قید کی سزا بھی دی جائے۔ پس 298 اے ایک مبہم قانون ہے، جس میں نہ لفظ توہین کی وضاحت موجود ہے، نہ صحابیت کے معیار کو واضح کیا گیا ہے اور نہ ہی قرآن و سنت کے مطابق تعزیر تجویز کرتے ہوئے کوئی حوالے پیش کیے گئے ہیں، جو تمام اہل اسلام کے لیے قابل قبول ہوں۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ مسلک کے لوگ اس قانون کو اپنے مذہبی عقائد پر ایک قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ یہ اکثریت کے فہم دین، فہم تاریخ کو اقلیت پر مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے وہ کسی طور پر بھی قبول نہیں کرسکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت ہمیں ملک میں اتحاد و وحدت کی ضرورت تھی، تاہم کسی نے ایک غیر ضروری بحث کا آغاز کرکے معاشی، سیاسی، اقتصادی اور قومی انتشارات کے شکار معاشرے کو مزید دھڑے بندیوں کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے اور جماعت اسلامی اس میں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی چاہتی تو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کے حوالے سے ہم آہنگی پیدا کرکے قانون سازی کے لیے اقدام کرسکتی تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں مزید علمی ماحول میں اس قانون کے حوالے سے بات کی جاسکتی تھی، تاہم کریڈٹ لینے کی جلدی میں جماعت اسلامی، سپاہ صحابہ پاکستان کا سیاسی ونگ بن گئی، جو کم از کم جماعت اسلامی جیسی جماعت کے شایان شان نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1037477
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش