1
0
Tuesday 25 Sep 2012 12:25
امریکہ ہر قیمت پر اس خطہ میں رہنا چاہتا ہے

ایران میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد امریکہ نے مسلم ممالک میں سنیوں کو بھڑکایا، لیاقت بلوچ

ایران میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد امریکہ نے مسلم ممالک میں سنیوں کو بھڑکایا، لیاقت بلوچ
لیاقت بلوچ کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے ہے، سکول کے دنوں میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے۔ اور پھر  دو مرتبہ ناظم اعلٰی اسلامی جمعیت طلبہ منتخب ہوئے۔ 1978ء میں طلبہ حقوق کے تحفظ کے اعزاز میں انہیں ایشین اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کا صدر چنا گیا۔ آپ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف اسلامک اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ ٹھنڈا اور دوستانہ مزاج رکھنے والے لیاقت بلوچ صاحب تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ 1996ء سے 1997ء تک ملی یکجہتی کونسل کے چئیرمین رہے، جبکہ 1994ء سے 1997ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے پولیٹیکل بیورو کے سیکرٹری بھی رہے۔ لیاقت بلوچ دو مرتبہ لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں، 2009ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر رہے۔ اور پھر 11 مئی 2009ء کو انہیں مرکزی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری مل گئی جسے آپ اب تک نبھا رہے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مختلف امور پر لیاقت بلوچ کے ساتھ ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکہ میں بنائی گئی اسلام مخالف فلم میں یقیناً امریکی حکومت کی بھی حمایت و منشاء شامل ہے، اس اقدام کیخلاف دنیا بھر میں مسلمانوں نے ملکر بھرپور احتجاج کیا، اور عالمی سطح پر امریکی مقبولیت میں مزید کمی ہوئی، امریکہ چونکہ اتنا نادان دشمن نہیں، آپ کے خیال میں اس فلم کو بنانے کے اصل امریکی مقاصد کیا ہوسکتے ہیں۔؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں جی، اس وقت امریکہ اور مغرب کا معاشی، سیاسی اور فوجی طاقت استعمال کرنے کا جو نظام ہے وہ عملاً ناکام ہو رہا ہے، اسی طرح انہوں نے اسلام، مسلمان، جذبہ شہادت کو ہدف بنا کر ناکام کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں بیداری بڑھ رہی ہے، جہاں کہیں مسلمان بیدار ہو رہے ہیں وہاں اسلامی تحریکیں، مذہب اور اسلامی قیادت کامیاب ہو رہی ہے، اس لئے اب وہ خوف کے عالم میں قرآن پر بھی حملہ آور ہے، محمد (ص) کی ناموس پر بھی حملہ آور ہے اور اسلامی تہذیب پر بھی حملہ آور ہے، اس حوالے سے لوگوں نے احتجاج کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا ہے، اب عوام مسلمان حکمرانوں کے انتظار میں ہیں کہ وہ بیدار ہوں اور ہوش کے ناخن لیں ہے اور یہ موقع ہے کہ عالمی سطح پر ایک ایسی قانون سازی کروائی جائے کہ جس سے تمام مذاہب، اسلامی شعار اور مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس کو تحفظ مل سکے۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ اس ایشو پر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ایک آواز بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کیا، کیا ایسا ممکن ہے کہ اس حساس معاملہ پر پاکستان میں تمام جماعتوں کی جانب سے مشترکہ تحریک چلائی جائے اور اس حوالے سے کیا جماعت اسلامی کوئی کردار ادا کرسکتی ہے۔؟
لیاقت بلوچ: 26 ستمبر کو اسلام آباد میں ایک اے پی سی ہو رہی ہے، جس میں تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے، انشاءاللہ اس اے پی سی میں اس حوالے سے اسٹریٹیجی بنائی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: توہین آمیز فلم کیخلاف ہونے والے مظاہروں میں توڑ پھوڑ اور گھیرائو جلائو میں کون ملوث تھا۔؟
لیاقت بلوچ: اصل میں عوام جو سڑکوں پر نکلے ہیں، جن کا یہ واویلا ہے کہ یہ مظاہرے پرتشدد تھے یا انتہاء پسند تھے، حقیقت میں وہ اس قسم کی الزام تراشی کرکے اپنے ظلم و زیادتی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، لوگ تو ڈرون حملوں میں بےگناہ افراد کے قتل ہونے پر ناراض ہیں، امریکہ جو اس خطے میں مداخلت کے ذریعے لوگوں کی آزادی اور عقیدہ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے لوگ اس کے خلاف ہیں، دوسری بات یہ کہ پاکستان میں جو امریکی ذہنی غلام حکمران ہیں، جنہوں نے لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب مسلط کیا ہے، اس کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی سے تنگ ہیں، انہیں جہاں بھی سڑکوں پر نکلنے اور نفرت کے اظہار کا موقع ملتا ہے تو ان کے جذبات بے قابو ہو جاتے ہیں، یہ جو پاکستان میں زبردستی سیکولرازم کو مسلط کرنے کا کام ہوا ہے اور اقتدار کو جو کرپشن کا ذریعہ بنایا گیا ہے، اب یہ نظام ناکام ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی نے امریکی مداخلت کیخلاف ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک شروع کی، کیا وجہ ہے کہ وہ اب غیر موثر ہوگئی ہے۔؟
لیاقت بلوچ: ہر آنے والا دن ہماری اس تحریک کو موثر کر رہا ہے، عوامی سطح پر امریکہ کے خلاف جس نفرت کا اظہار ہو رہا ہے یہ ہماری تحریک کی کامیابی کی نشاندہی ہے، قومیں مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہی اپنی آزادی کی حفاظت بھی کرتی ہیں اور استعمار و اغیار کی غلامی سے نجات بھی پاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن میں جماعت اسلامی مذہبی جماعتوں کیساتھ اتحاد کو ترجیح دے گی یا پھر ن لیگ، تحریک انصاف یا پھر کسی اور طرف دیکھا جائے گا۔؟
لیاقت بلوچ: جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہی ہم انتخابات میں حصہ لیں گے اور انتخابات کے ذریعے ہی ہم اس ملک میں رول آف لاء اور آئین کی اصل روح کیساتھ اس کا نفاذ چاہتے ہیں، اس لئے دینی جماعتیں بھی ہماری ترجیح میں شامل ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساری اپوزیشن قوتوں کو اکٹھا کرنا، تاکہ اس کرپٹ اور نااہل حکمران ٹولے سے حکومت کو نجات ملے۔ یہ بھی ہمارے آپشنز اور ترجیح میں شامل ہے، جیسے جیسے الیکشن قریب آئے گا، ہم ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ فیصلے کریں گے، تاہم ابھی تمام آپشنز اوپن ہیں۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں 5 مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس میں جماعت اسلامی شامل نہیں، کیا جماعت اسلامی ایم ایم اے کی متوقع بحالی کا حصہ نہیں ہوگی۔؟
لیاقت بلوچ: میرا خیال ہے کہ یہ کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن ایسا کوئی باقاعدہ اجلاس یا فیصلہ ہمارے سامنے نہیں آیا، اگر وہ ہمارے بغیر چل سکتے ہیں تو ضرور چلیں، ہم کوئی اختلاف تو نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: بلوچ صاحب مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کی بحالی میں رکاوٹ کون ہے۔؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں، اس کو فعال کرنے کیلئے ہم نے تین بنیادی مطالبات رکھے، پہلا یہ کہ ایم ایم اے اس انجام سے کیوں دوچار ہوئی، اس بات کو واضح ہونا چاہئے؟ دوسری بات یہ کہ جن حکمرانوں سے ہمارا پالیسی اختلاف ہے اور جن کے خلاف ہم عملی میدان اور مسلسل جدوجہد کے محاذ پر موجود ہیں، ایم ایم اے اگر بحال ہونی ہے تو اس کی ممبر جماعتیں وہ ایسے غلط کار حکمرانوں سے مکمل طور پر ترک تعلق کریں، اور ہم ایک ایسی پالیسی اپنائیں جو لوگوں کا اعتماد حاصل کرسکے اور ہم ماضی کی غلطیوں کو پھر نہ دہرائیں، اس کا سدباب ہونا چاہئے، یہی ہمارے بنیادی مطالبات ہیں، جس کی وجہ سے ہم بات کر رہے ہیں، لیکن وہ اس کو دوسرا رخ دے دیتے ہیں کہ وہ (ہم) سیٹیں مانگ رہے ہیں، جیسے سیٹیں ان کی جیبوں میں موجود ہیں، سیٹیں تو کسی کی جیب میں نہیں ہیں، یہ تو الیکشن بتائے گا کہ کہاں ہیں سیٹیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان سے انخلاء کیلئے جو تاریخ دی ہے، آپ کے خیال میں کیا امریکہ اس وقت تک یہاں سے نکل جائے گا یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ امریکہ یہاں پر مستقل ٹھکانہ بنانے آیا تھا اور وہ یہی کرے گا۔؟
لیاقت بلوچ: نیو ورلڈ آرڈر اور امریکی پلان بڑا واضح ہے کہ وہ اس خطہ میں ہر قیمت پر موجود رہنا چاہتا ہے، اس کی وجہ پاکستان، گرم پانی، سینٹرل ایشیاء، ایران کے مقابلے میں بھی مضبوط بنیاد بنانا اور مستقبل میں جو اس کو چین سے خطرات لاحق ہیں، اس کے سدباب کیلئے بھی کوئی راہ تلاش کرے، امریکہ تو خطہ میں رہنا چاہتا ہے، اس لئے ہمارا ہدف تو یہی ہے کہ جہاں امریکہ افغانستان سے نکلے وہیں اس خطہ سے بھی نکلے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں امریکی مداخلت کم نہیں ہو پا رہی، اب گلگت بلتستان میں بھی یو ایس ایڈ کے ذریعے امریکی مداخلت کی خبریں آرہی ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر جو بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا، اس میں امریکہ کسی حد تک ملوث ہو سکتا ہے۔؟
لیاقت بلوچ: امریکہ کا اصل ہدف تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرے، اور پاکستان کی جو ایٹمی صلاحیت ہے، انڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کو محدود کیا جائے اور اس پر قبضہ کیا جائے اور امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے، اس لئے ایک اندورنی انتشار پھیلاتے ہوئے مذہب اور سیاست کے محاذ پر ہمیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، امریکہ جو ہمیں خراب کر رہا ہے یہ ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت قاضی حسین احمد صاحب کی صورت میں ملی یکجہتی کونسل کی سربراہی کر رہی ہے، یہ اتحاد ملی یکجہتی کیلئے اب تک کیا کردار ادا کرسکا ہے اور قوم مستقبل میں کس حد تک توقعات وابستہ کر سکتی ہے۔؟
لیاقت بلوچ: ابھی تو ابتداء ہے ناں جی۔ جو شدید اختلافات اور نفرتیں، جن کو بڑی قوت سے تیار کیا گیا ہے، ان کو ختم کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا اور انشاءاللہ ملی یکجہتی کونسل کا قیام نیک شگون ثابت ہوگا، اور یہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے پیروکار ہمیشہ سے باہمی بھائی چارے سے رہتے آئے ہیں، موجودہ دور میں فرقہ واریت پیدا کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے۔؟
لیاقت بلوچ: اس حوالے سے زیادہ شدت ایران کے انقلاب کے بعد پیدا ہوئی کہ جب امریکہ وہاں ناکام ہوگیا تو اس نے مسلم ممالک میں خوف پیدا کیا کہ شیعہ انقلاب آرہا ہے اور سنیوں کو بھڑکایا، اب وہ آگ بھڑکی ہوئی ہے اور اس میں ہم سب بھسم ہو رہے ہیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اہل تشیع کے عقائد اور ان کی بنیادیں کوئی نئی نہیں، وہ تو پہلے سے موجود ہیں، اسی طرح اہل سنت کی بھی عقائد کی مضبوط بنیادیں پہلے سے ہی موجود ہیں، ہمارے اکابرین، علماء اور اساتذہ نے اس اختلاف کو ایک دائرے میں رکھا، جس دن یہ شعور پیدا ہوگیا تو دشمن اپنے مقاصد میں ناکام ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے اہم ممالک ایک بلاک بنا کر خطہ سے امریکی مداخلت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں۔ یہ تو ناگزیر ہے، امریکہ جو اس خطہ میں روس، افغانستان، ایران، سینٹرل ایشیاء اور چین کیلئے خطرہ ہے، وہ تمام ممالک جنہیں امریکہ کی اس حکمت عملی سے خطرات ہیں انہیں اکٹھا ہونا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں اٹھنے والی بیداری کی تحریکوں کو بعض مقامات پر امریکہ نے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
لیاقت بلوچ: اگر مسلم ممالک کے حکمران ازخود عوام کے جذبات کو نہیں سمجھیں گے اور شعور کیساتھ فیصلے نہیں کریں گے تو پھر اسلام اور مسلم دشمن قوتیں موجود ہیں، وہ اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 198260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Wel said
ہماری پیشکش