0
Saturday 7 Jul 2012 22:07

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
تحریر تصورحسین شہزاد

لیجئے صاحب! امریکہ نے آخر کار کامیابی حاصل کرلی اور ہماری حکومت سمیت اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کو اپنی ’’جادو کی چھڑی‘‘ سے رام کر ہی لیا ہے۔ حکومت نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، اس کے فیصلوں پر ہی عمل ہوگا، نیٹو سپلائی اتنی آسانی سے نہیں کھلے گی، پارلیمنٹ کی سفارشات اہم ہیں، ملکی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن وہ سب باتیں، محض بڑھکیں ہی ثابت ہوئیں۔ ملکی سلامتی پر بھی سمجھوتہ ہوگیا اور خودمختاری بھی ہم نے امریکہ کے قدموں میں رکھ دی۔ ہمارے ہاں سیاست کا چلن کچھ ایسا ہے کہ جھوٹ کو بنیاد بنا کر لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر جو عوام کو سب سے زیادہ بیوقوف بنا لے وہی بڑا سیاست دان مانا جاتا ہے۔ ایک اور چیز بھی ہمارے معاشرے میں کافی اہم ہے اور وہ یہ کہ یہاں مذہب اور سیاست کو الگ الگ پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔

مذہب ایک مقدس مورتی ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے، مذہبی لوگوں کا کام محض نماز روزہ اور نیکی کے دوسرے کام کرنا ہے، جبکہ سیاست چونکہ جھوٹ اور فریب کا چلن ہے اس لئے اس میں مخصوص لوگ ہی آسکتے ہیں، ذرا کچھ کھل کر کہہ دوں کہ اس نگر میں شریفوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اب اگر کوئی شریف آدمی اس کارزار میں قدم رکھ دے تو عوام ہی اس کا دامن پکڑ کر سوال کر دیتے ہیں کہ ’’بھئی آپ تو شریف آدمی ہیں، آپ اس نگر میں کیوں آگئے‘‘ اور بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ میں تو عوام کے حقوق کیلئے آیا تھا، اب عوام ہی نہیں چاہتے کہ کوئی شریف آدمی ان کی قیادت کرئے تو میں کیا کرسکتا ہوں اور وہ مایوس ہو کر کارزار سیاست سے نکل آتا ہے۔

ہماری سیاست میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ فرضی کہانی مشہور کر دی گئی ہے کہ سیاست میں وہ ہی آگے آسکتا ہے جس کو امریکہ بہادر ’’او کے‘‘ کر دے۔ یہاں ووٹ سے نہیں، امریکی سپورٹ سے عہدے، وزارتیں اور حکومتیں ملتی ہیں۔ یعنی سیاست دانوں کو امریکہ کے در پر جھکانے کیلئے امریکہ نواز لابی ایک خوف مسلط کرتی ہے اور اس خوف کی لہر میں بہت سے سیاست دان بہہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ مذہبی جماعتوں کے سربراہ بھی امریکہ کے در پر سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔

آخر کار نیٹو سپلائی بحال ہو ہی گئی، اس سپلائی سے امریکہ جو پاکستان کا فطری دشمن ہے، دعوئے جیسے مرضی کرتا رہے، ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کا کسی طور پر بھی دوست نہیں ہوسکتا، جیسے آگ اور پانی، جیسے زمین اور آسمان، جیسے ندی کے دو کنارے آپس میں ایک نہیں ہوسکتے ویسے ہی امریکہ اور پاکستان کی دوستی بھی نہیں ہوسکتی، امریکہ، بھارت اور اسرائیل، یہ تین ملک پاکستان کے فطری دشمن ہیں۔ یہ ہزار دوستیاں کرلیں، تجارتی معاہدے کر لیں، دوستی بسیں چلا اور سفارتی روابط بڑھا لیں، ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے۔ البتہ ایران، چین اور ترکی پاکستان کے فطری دوست ہیں۔ یہ تینوں ملک پاکستان سے ناراض بھی ہوں تو بھی ایک دوسرے کے دکھ درد کے حقیقی ساتھی ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ان ممالک کیساتھ تجارتی و سفارتی رابطے بہتر بنائے تو فریقین کا بھلا ہوگا، امریکہ بھارت اور اسرائیل سے دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ملنے والا۔

نیٹو سپلائی جب بند تھی اور پاکستان اس کی بندش اور بحالی کے حوالے سے مشوروں اور قراردادوں میں مصروف تھا، امریکہ نے طرح طرح سے دباؤ ڈالا۔ یہاں تک جارحیت کا ارتکاب کر دیا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں جنگی بیڑہ لاکر کھڑا کردیا کہ اگر پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال نہ کی تو پاکستان پر حملہ کر دیا جائے گا۔ دوست تو اس طرح نہیں کرتے اور جو امریکہ کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے، انہیں امریکہ کی اس حرکت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دوستوں سے بات منوانے کیلئے ’’گن پوائنٹ‘‘ حربہ استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ پیار محبت سے بات منوائی جاتی ہے۔

جہاں تک ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں تو ان کے بارے میں سوچ کر بھی دل دہل جاتا ہے کہ ان کے کردار کیسے ہیں، دن کو امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں، رات کو امریکہ کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان جماعتوں کے مخالفین کی محفلوں میں چلے جائیں تو ایسے ایسے ’’انکشافات‘‘ سننے کو ملیں گے کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ نواز شریف بہت بولتے ہیں امریکہ کے خلاف۔۔۔ نیٹو سپلائی بحالی کا موقع آیا تو اس سے پہلے ہی خاموشی سے لندن کھسک گئے۔ کہ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو یقیناً اس فیصلے اور امریکہ کی مخالفت میں سڑکوں پر نکلنا پڑتا، لیکن وہ تو ہیں ہی باہر، تو احتجاج کیسا۔۔۔ ؟ نیٹو کی سپلائی کی بحالی پر نواز لیگ کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ سپلائی بحالی سے پہلے تک جو گرما گرم بیانات کا سلسلہ جاری تھا وہ بھی اچانک روک لیا گیا، دوسرے لفظوں میں نواز لیگ کے مخالفین کہتے ہیں، میاں صاحب بھی امریکہ کے در پر سجدہ ریز ہوگئے۔

اب ذرا دفاع پاکستان کونسل کا حال ملاحظہ کرلیں۔ ان کے مخالفین بھی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، ایک مخالف سے میرا بھی سامنا ہوگیا۔ کہنے لگا، آپ بڑے صحافی بنے پھرتے ہیں پتہ ہے شیخ رشید امریکہ کیوں گئے؟ میں نے کہا روٹین کا دورہ تھا، وہ اپنے نجی دوستوں سے ملنے گئے ہیں۔ موصوف طنزیہ ہنسے اور کہنے لگے، شیخ رشید دوستوں سے ملنے نہیں، دشمنوں سے ڈیل کرنے گئے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کون دشمن؟؟ کہنے لگا وہ جس کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، میں نے کہا امریکہ۔۔۔؟ کہنے لگے جی بالکل، یہ نیٹو سپلائی بحالی کے لئے امریکہ سے ڈالر لینے گئے ہیں، جو پاکستان آ کر دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔
 
میں نے کہا کہ ائیر پورٹ پر پانچ گھنٹے روکنا اور تلاشی، پھر موبائل فون سے تمام ڈیٹا لے لینا، یہ سب کیا ہے، موصوف نے انتہائی پراعتماد لہجے میں کہا، یہ سب ڈرامہ ہے۔ اصل پہلو سے توجہ ہٹانے کیلئے ۔۔۔ شیخ صاحب پاکستان کے معروف سیاست دان ہیں، کسی گاؤں کے ماجھا تیلی نہیں کہ امریکہ والے انہیں جانتے نہ ہوں۔ یہ صرف میڈیا میں خبر چلوائی گئی ہے کہ لوگ اصل بات کی جانب دھیان نہ دیں۔

میں دفاع پاکستان کونسل کے مخالف کی یہ بات سن کر حیران ضرور ہوا، میری سوچ کو پختگی اس وقت ملی، جب جماعت الدعوۃ کے حافظ محمد سعید نے قادسیہ مسجد میں خطبہ جمعہ کے دوران کہا کہ ہم نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف پرامن احتجاج کریں گے، دشمن چاہتا ہے ہم توڑ پھوڑ کریں، ہم اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچائیں، لیکن ہم ان کی باتوں میں آنے والے نہیں، ہم صرف مظاہرے کریں گے، احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔۔۔۔۔ حافظ سعید صاحب جب یہ جملے ادا کر رہے تھے تو ان کا ایک مخالف اس طرح ترجمہ کر رہا تھا کہ ’’ہماری ڈیل ہوگئی ہے ہم محض امریکہ دشمنی سے بھرئے ہوئے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے لانگ مارچ کریں گے، جلوس نکالیں گے، دھمکیاں دیں گے اور امریکہ کو گو امریکہ گو کہیں گے، لیکن پلیز امریکہ بھائی یہ سب دکھاؤا ہوگا، آپ مائنڈ نہ کرنا، ہم تو آپ کے ساتھ ہیں، ہم تو آپ کے دوست ہیں، بس ہمارے عوام آپ کے مخالف ہیں، اس لئے ہمیں بھی ان کا مجبوراً ساتھ دینا پڑتا ہے‘‘۔

اب آتے ہیں عمران خان کی جانب، عمران خان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اندر سے امریکہ کا دوست اور باہر سے کھلا مخالف، دوستی اور دشمنی کا پتہ ہمیشہ وقت آنے پر ہی چلتا ہے۔ اب نیٹو سپلائی بحال ہوچکی ہے، جو جو امریکہ کے یار ہیں وہ بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے نیٹو سپلائی بحالی کی مخالفت میں پشاور میں بہت بڑا دھرنا دیا تھا اور پوری رات بہت سے لوگوں کو وہاں بٹھائے رکھا تھا، پوری دنیا کو پیغام دیا گیا کہ اگر نیٹو سپلائی بحال ہوئی تو عمران خان اسی طرح سپلائی روٹس پر بیٹھ کر دھرنا دے گا اور اپنے افغان بھائیوں کے موت کے سامان کو افغانستان نہیں جانے دے گا۔ بہت سے لوگ متاثر ہوئے کہ عمران خان مخلص لیڈر ہے، جس میں واقعی عوام اور اسلام کا حقیقی درد ہے، لیکن مخالفین کے بقول بغیر وضو کے نماز پڑھنے والا عمران خان بھی امریکہ کو سجدے کرتا ہے۔

اب جب نیٹو سپلائی بحال ہوچکی ہے، عمران خان خاموش ہیں، نہ دھرنا، نہ احتجاج اور نہ مخالفت۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول کر چپ ہوتے جا رہے ہیں، یہ سپلائی اسی طرح جاری رہے گی، حکمران اسی طرح ڈالر بٹورتے رہیں گے اور اپوزیشن مذہبی و سیاسی جماعتوں کے شیخ رشید اسی طرح امریکہ کے ائیر پورٹس پر ’’تلاشیاں‘‘ دیتے رہیں گے۔ ان سب کی تقدیر بدل جائے گی، ان کے بچوں کا مستقبل بھی سنور جائے گا، نہیں بدلے گا تو غریب کا مقدر نہیں بدلے گا۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ، یہ مذہبی جماعتوں کے قائدین ہماری جان اور دل ہیں، ہم ہمیشہ ان کا احترام کرتے رہیں گے، ان کے نعروں اور جھانسوں میں آتے رہیں گے۔ یہ وہ دل ہیں جس کا پہلو میں بہت شور ہوتا ہے اور جب انہیں چیرا جائے تو ایک قطرہ لہو تک نہیں نکلتا۔
خبر کا کوڈ : 177205
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش